کراچی میں محکمۂ انٹی کرپشن کے تحت سپریم کورٹ کی توہین عدالت کےمرتکب اور کھلے عام بدعنوانی کے ملزمان کو کلین چٹ دینے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بلدیہ شرقی میں محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے محکمہ آوٹ ڈور ایڈورٹائزمنٹ میں مک مکا کے ثبوت ایم ایم نیوز کو مل گئے۔
محکمہ اینٹی کرپشن، حکومت سندھ اور بلدیہ شرقی کے کرپٹ افسران مل کر سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بلدیہ شرقی کے چیئرمین، میونسپل کمشنر اور محکمہ بیرونی اشتہارات کے افسران کے خلاف انکوائری مکمل ہو چکی تھی اور ایف آئی آر درج کرانے کی سفارش سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے کی، تمام ترثبوت اور گواہوں کی موجودگی کے باوجود اس کیس میں پھنسنے والے ڈی ایم سی کے افسران نے سندھ حکومت میں پنجے گاڑ لیے۔
کیس میں پھنسے ہوئے ڈی ایم سی افسران نے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ایسٹ زون ضمیر عباسی کا تبادلہ کروا کر نئے ڈپٹی ڈائریکٹر لعل ڈنو منگی کے ذریعے نہ صرف ایف آئی آر کا اندراج رُکوا دیا بلکہ اس کیس کو مکمل بند کر کے کلین چٹ دینے کے لیےموجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر سے خط بھی لکھوایا۔
موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن لعل ڈنومنگی نےڈائریکٹر اینٹی کرپشن کو جو خط لکھا اس میں کہا گیا ہے کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن زاہد احمد راہوجو نے رپورٹ کے ساتھ یہ سفارش کی کہ اب اس کیس کو بند کر دیا جائے ، جبکہ میں (لعل ڈنو منگی) بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اسے بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جائے۔
با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کلین چٹ کے حصول کے لیے چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور نے مبینہ طورپر بھاری نزرانے پیش کیے جبکہ یہ رقم اس کیس میں پھنسے افسران سے لے کر جمع کی گئی۔
بلدیہ شرقی کے 2 اہم کیسز کی انکوائری محکمہ اینٹی کرپشن نے کی تاہم دونوں میں کلین چٹ کیلئے پی پی پی کے بعض ڈویژنل افسران بھی ملوث ہیں۔
پی پی پی کے بعض ڈویژنل افسران نے کلین چٹ کیلئے اہم کردار ادا کیا جبکہ سندھ سیکرٹریٹ کے ذریعے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ضمیر عباسی سمیت ان کی ٹیم کو ایسٹ زون سے باہر کر دیا گیا جس کے بعد ایک نئی کہانی لا کر انہیں کلین چٹ دلوانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔
قبل ازیں سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ضمیر عباسی نے تمام تر کارروائی مکمل کر کے بلدیہ شرقی کے بیرونی اشتہارات میں 60 لاکھ کی صرف ایک کرپشن کے ثبوت جمع کیے جو اسٹیمرز ( کھمبوں) پر لگنے والے اشتہارات کی مد میں تھےاور ایک وعدہ معاف گواہ بھی تلاش کر کے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کو ایف آئی آر درج کرنے کے لیے لیٹرتحریر کیا۔
یہ لیٹر نمبرNO.DD/ACE/K/E/2019/400 مورخہ 13 فروری 2020 کو بھیجا گیا تاہم ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے اسے دبا کر رکھا اور ذرائع کا کہنا ہے کہ وہیں سےمحکمہ اینٹی کرپشن، میں بدعنوانی شروع ہوئی جس پر شہریوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔
کیس کے درخواست گزاروں، کراچی کے شہریوں اور مختلف سیاسی ، سماجی و مذہبی جماعتوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس کیس کو بھی عدالت میں سماعت کے لیے اپنے از خود نوٹس کا حصہ بنائیں اور اس میں بد نیتی کے ساتھ بد ترین کرپشن کا سختی سے نوٹس لیں۔
یہ بھی پڑھیں: اینٹی کرپشن نے مشینوں کی خریداری میں کرپشن کا نوٹس لے لیا