قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک اور واقعہ، عراق نے سویڈن کے سفیر کو ملک سے نکال دیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بغداد: سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم میں حال ہی میں قرآن کو نذر آتش کرنے کے معاملے پر سفارتی تنازع شدت اختیار کرگیا جس کے پیش نظر عراقی حکومت نے بغداد میں سویڈن کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

سویڈن میں رہنے والے ایک شہری سلوان مومیکا کی جانب سے ایک بار پھر قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئےعراقی پرچم کی تذلیل کی گئی ہے۔

سویڈن میں پھر قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دیئے جانے پرعراقی دارالحکومت بغداد میں صبح سویرے سیکڑوں مشتعل مظاہرین نے دھاوا بول کر سویڈن کا سفارت خانہ جلا دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں جمعرات کوعلی الصبح سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں مظاہرین کو جھنڈے اورعراقی شیعہ مذہبی اور سیاسی رہنما مقتدیٰ الصدر کی تصویر والے کارڈز لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

سویڈش وزارت خارجہ نے اس واقعے پر اپنے بیان میں کہا کہ سفارت خانے اور سفارتی عملے کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری عراقی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔

عراقی حکومت نے 20 مظاہرین کو گرفتار کیا تاہم ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی تو سفارتی تعلقات توڑ لیے جائیں گے۔ جب سوئیڈش حکومت نے قرآن پاک کی بے حرمتی نہیں روکی تو عراق نے سویڈش سفیر نکال دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

سویڈن میں قرآن پاک کی دوبارہ بے حرمتی پر پاکستان کی شدید مذمت

واضح رہے کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے سویڈن میں عراقی سفیر کو بھی واپس بلایا جارہا ہے۔

قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا شخص کون ہے؟

قرآن پاک کی متعدد بار بے حرمتی کرنے والے شخص کا نام سلوان مومیکا ہے، جوعراق کے صوبے موصل کے ضلع الحمدانیہ سے تعلق رکھتا ہے۔

سلوان نے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے سے قبل عراقی شہر نینوا میں ملیشیا کی سربراہی بھی کرچکا ہے۔ یہ شخص دھوکا دہی سمیت متعدد کیسز میں عراق کو مطلوب ہے۔

سلوان کئی سال قبل سویڈن فرار ہوگیا تھا اور اس کی حوالگی سے متعلق عراقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر سویڈش حکومت سے درخواست بھی کی گئی ہے۔

لیکن تاحال سویڈن کی حکومت کی جانب سے سلوان کو عراقی حکومت کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔

Related Posts