سموگ ایمرجنسی کی اصطلاح پاکستانیوں خصوصاً پنجاب کے لوگوں کے لیے نئی نہیں ہوگی، ہر سال اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔
افسوسناک طور پر سموگ ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔ رواں سال بھی ایسا ہی ہوا جب پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر نجی اور سرکاری سکولوں میں 3 دن کی تعطیلات کا اعلان کیا۔
تاہم لاہور کے سکولوں میں سے اکثر کی انتظامیہ نے بچوں کی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے جمعۃ المبارک اور ہفتے کے روز بھی اسکول کھولا اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی تعلیم کیلئے بلایا۔
دراصل یہ مسئلہ گمبھیر ہوچکا ہے۔سموگ نے پنجاب کے بڑے حصوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے جہاں ہوا کے معیار کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت اس بار مستعد ہے اور لاہور میں ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ نافذ کر دی ہے۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ سموگ سکواڈز کو متحرک کر دیا گیا ہے اور فصلوں کو جلانے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سموگ نے صوبے کے بڑے حصے کو مفلوج کر رکھا ہے۔
تمام تر پابندیاں اس لیے لگائی گئی ہیں کیونکہ ہوا کا معیار خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے اور انسانی صحت پر شدید اثر ڈال سکتا ہے۔ شہری فوٹو کیمیکل سموگ کی گرفت میں ہیں۔
فوٹو کیمیکل سموگ سے مراد سموگ بنیادی طور پر اس وقت ہوتی ہے جب ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہوتی ہے جبکہ اس پر بہت سی تحقیق کی جاچکی ہے۔
بہت سے محققین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگرچہ سموگ کے مختلف اشارئیے سردیوں اور گرمیوں کے موسموں میں یکساں رہے ہیں تاہم سردیوں کے موسم میں فصلوں کے جلنے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
یہ ایک ایسا عنصر ہے جس کی نگرانی کرنے والے اہلکار بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ آیا واقعی دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ لہٰذا فیصلہ کیا یگا کہ صوبے بھر میں تمام تر سرگرمیاں اس وقت تک معطل رہیں گی کہ جب تک موسمِ سرما کا اختتام نہ ہوجائے اور سموگ نہ ختم ہوجائے۔
دوسری جانب کاربن کے اخراج کا بڑا مسئلہ گاڑیوں کا دھواں، صنعتی آلودگی، غیر سبز ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس، ہزاروں اینٹوں کے بھٹوں کے ذریعے فضلہ اور کوئلہ جلانے کی صورت میں فضائی آلودگی برقرار ہے اور اسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ کچھ سال کے دوران پنجاب میں حکام ان دیرینہ مسائل کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ سموگ کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ ہر گزرتے سال کے ساتھ صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔