اسلام آبا:اسلام آباد میں اہم شخصیت کی غیر ملکی کرنسی کو کو قانونی شکل دینے کے لیے منی چینجر والوں نے مبینہ ڈکیتی کا ڈرامہ رچایا۔
68 لاکھ روپے کی یورو کرنسی کو راولپنڈی سے ریال اور پاکستانی کرنسی سوری پاؤں میں تبدیلی کے بعد واپسی پر اپنے ہی بندے بھیج ڈکیتی کروائی گئی۔
تھانہ آبپارہ پولیس نے سارے کرداروں کا سراغ لگا لیا تو منی چینجر والوں نے وفاقی پولیس کے ایک انسپکٹر کی خدمات لے کر اور بھاری نذرانہ دے کر مقدمہ کی تفتیش سی آئی اے پولیس اسلام آباد میں تبدیل کروا دی۔
اہم شخصیت نے معاملے کو دبانے کے لیے سی آئی اے پولیس کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں کرلیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کھڈا مارکیٹ میں مورخہ 4 اپریل 2020 کو ڈکیتی کی ایک آسان واردات میں ڈاکو گاڑی کے ڈرائیور محمد سفارش سے 48 لاکھ روپے یے سے برا ہوا بیگ لے کر فرار ہو گئے۔
جبکہ دس ہزار ڈالر اس لیے محفوظ رہے کہ وہ گاڑی میں سوار سکیورٹی گارڈ کے پاس تھانہ آبپارہ پولیس نے ابتدائی تفتیش میں انتہائی خوش دلی سے ہونے والی اس واردات کو مشکوک قرار دیکر مقدمہ درج کرلیا۔
ڈرائیور محمد سفارش نے ابتدائی بیان میں کہا کہ وہ اسلام آباد بلیو ایریا کے عمر ڈاھاوا اور عدنان ڈاھاوا منی چینجر سے 68لاکھ یورو تبدیل کروانے کے لئے راولپنڈی میں شیخ اقبال منی چینجر کے پاس لے کر گئے تھے جہاں پر ان یورو کو پہلے سعودی ریال میں تبدیل کیا گیا۔
پھر ان سعودی ریالز کو 10000 ہزار ڈالر اور 68لاکھ پاکستانی کرنسی میں تبدیل کردیا گیا اور دو موٹر سائیکل سواروں نے کھڈا مارکیٹ میں گاڑی کو روک کر نوٹوں سے بھرا بیگ چھین لیا اور فرار ہوگئے۔
معاملہ اس وقت مزید مشکوک ہوگیا جب شیخ اقبال منی چینجر کے جنرل مینیجر رضوان بٹ نے بیان دیا کہ سی سی ٹی وی کیمرے پر آسمانی بجلی گری تھی جبکہ مذکورہ پلازے کے کسی بھی فلور پر آسمانی بجلی گرنے کے آثار نہیں تھے۔
اسطرح ایک طرف راولپنڈی منی چینجر والوں سے کیمرے کی ڈسک تبدیل کی اور دوسری طرف عمر ڈھاوا اور عدنان ڈاھاوا کی شاپ پر اسی تاریخ کو عین اسی وقت آگ لگانے کا ڈرامہ رچا کر ریکارڈ غائب کردیا گیا۔
آبپارہ پولیس نے تمام ریکارڈ مل جانے کے بعد جب دوبارہ ڈرائیور محمد سفارش کو شامل تفتیش کیا تو اس نے بیان بدل لیا اور بتایا کہ ہمیں مالک نے جو بیان دینے کو کہا تھا ہم نے وہ بیان دیا۔
دوسری طرف ڈسک تبدیل کرنے والے رضوان بٹ نے بھی اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ پلازے پر بجلی نہیں گری تھی بلکہ جرم کو چھپانے کے لیے ڈسک بدلی گئی جب ملزمان کو چاروں طرف سے تفتیش سے گھیر لیا گیا۔
معاملہ یورو کرنسی کے اصل مالک کو شامل تفتیش کرنے کے لئے آگے بڑھایا گیا تو پھر پولیس کے ایک انسپکٹر نے عمر ڈاھاوا اور عدنان ڈاھاوا اور شیخ اقبال کے مشیر کے طور پر کام کرتے ہوئے تفتیش تبدیل کروا کر سی آئی اے پولیس اسلام آباد کے حوالے کر دی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ کیس کوختم کرنیکے لیے سی آئی اے پولیس کو رضامند کرلیا گیا ہے اور یورو کرنسی کے اصل مالک کا نام بھی خفیہ رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔