غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے پر سلامتی کونسل کے تمام ارکان امریکا پر برس پڑے

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
سلامتی کونسل میں امریکی مندوب قرارداد مسترد کرتے ہوئے، فوٹو عالمی میڈیا

امریکہ نے بدھ کے روز غزہ میں جنگ بندی اور محصور علاقے میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کی اپیل پر مبنی قرارداد کو ویٹو کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے غصے کو بھڑکا دیا۔

فرانس اور برطانیہ کے سفیروں نے ووٹنگ کے نتائج پر “افسوس” کا اظہار کیا، جبکہ چینی سفیر فو کونگ نے براہ راست امریکہ کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے سیاسی مفادات سے دست بردار ہو کر منصفانہ اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔

الجزائر کے سفیر عمار بن جامع نے کہا کہ خاموشی نہ مردوں کا دفاع کرتی ہے، نہ مرتے ہوؤں کا ہاتھ تھامتی ہے، اور نہ ہی ظلم کے نتائج کا سامنا کرتی ہے۔
پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے امریکی ویٹو پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی اجازت اور سلامتی کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ قرار دیا۔

سلووینیا کے سفیر سموئیل زبوگار نے کہا کہ جب انسانیت کو غزہ میں براہ راست آزمائش کا سامنا ہے، تو یہ قرارداد ہمارے مشترکہ احساسِ ذمہ داری سے جنم لے چکی ہے، یہ ذمہ داری ہم غزہ کے عام شہریوں، اسیر اسرائیلیوں اور تاریخ کے سامنے ادا کرتے ہیں۔ وہ پکار اٹھے بس! بس … بہت ہو گیا!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں بطور صدر واپسی کے بعد یہ پہلا ویٹو ہے جو واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں استعمال کیا ہے۔
ووٹنگ سے قبل امریکی مندوب ڈورتھی شیا نے کہا کہ یہ قرارداد ایسی جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گی جو زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہو اور حماس کی حوصلہ افزائی کرتی ہو۔ نیز یہ قرارداد اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک جھوٹی مساوات قائم کرتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ متن نہ صرف اس وجہ سے ناقابل قبول ہے کہ اس میں کیا درج ہے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس میں کیا شامل نہیں کیا گیا۔ انھوں نے اسرائیل کے “اپنے دفاع کے حق” پر زور دیا۔

یہ سلامتی کونسل، جس میں پندرہ رکن ممالک شامل ہیں، کی جانب سے غزہ کی جنگ پر پہلا ووٹ تھا، جو نومبر کے بعد ہوا۔ اس سے قبل سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ نے ایسی ہی ایک قرارداد کو روکا تھا، جو جنگ بندی کا مطالبہ کرتی تھی اور یہ جنگ تقریباً 20 ماہ سے جاری ہے۔

سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ کے بارے میں آخری قرارداد جون 2024 میں منظور ہوئی تھی، جس میں ایک امریکی منصوبے کی حمایت کی گئی تھی جو مرحلہ وار جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مشتمل تھی، تاہم جنگ بندی جنوری 2025 تک مؤثر نہ ہو سکی۔

اس حالیہ قرارداد کو سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان نے پیش کیا، جس کے حق میں 14 ووٹ آئے، جبکہ مخالفت میں صرف امریکہ نے ووٹ دیا۔
قرارداد میں “فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی” اور قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ساتھ ہی “غزہ میں تباہ کن انسانی صورت حال” پر روشنی ڈالی گئی اور “غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ، فوری اور غیر مشروط رسائی” پر زور دیا گیا، تاکہ اقوام متحدہ سمیت دیگر فریقین کی جانب سے امداد محفوظ اور مؤثر طریقے سے پہنچائی جا سکے۔

Related Posts