دُنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں سے ایک ملالہ یوسف زئی کی زندگی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
پینشن نہیں، پوزیشن؛ سینئر پروفیشنلز کو ورک فورس میں رکھنے کی ضرورت
Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مقبوضہ بیت المقدس میں بچوں اور نمازیوں پر تشدد ناقابل قبول ہے، ملالہ یوسفزئی
مقبوضہ بیت المقدس میں بچوں اور نمازیوں پر تشدد ناقابل قبول ہے، ملالہ یوسفزئی

دُنیا بھر کے 100 بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل ملالہ یوسفزئی کی آج 23ویں سالگرہ ہے جس کی مناسبت سے ہم نے آج یہ طے کیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی سے منسوب تمام تر معلومات آپ کے سامنے رکھی جائیں۔

دوسری جانب عوام الناس ملالہ یوسفزئی کی بے مثال تعریفیں اور بے پایاں تنقید دونوں میں مصروف نظر آتے ہیں جس سے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ملالہ کوئی متنازعہ شخصیت ہے، اس لیے اس پر مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔

آئیے ملالہ یوسفزئی کی سالگرہ کے موقعے ایسے ہی مختلف سوالات اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے شناسائی حاصل کرتے ہیں تاکہ ملالہ کی ذات پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے گہرے بادل ہٹا کر حقیقت کا سامنا کیا جاسکے۔

ملالہ یوسفزئی کون ہے؟

کمسن ترین نوبل پرائز جیتنے والی ملالہ یوسفزئی نے اُس وقت حقوقِ نسواں کی بات کی جب ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان) نے اُس کے علاقے پر قبضہ کرکے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا اور خواتین کی بے حرمتی بھی کی۔ ملالہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے تعلق رکھتی ہے۔

حقوقِ نسواں کی بات، تعلیم سمیت عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی بات اور دیگر تمام تر جدید نعرے جو موجودہ دور کی پیداوار ہیں، سب ملالہ یوسفزئی سے منسوب کیے جاتے ہیں۔

شہرت کیسے ملی؟

جب ملالہ یوسفزئی تقریباً 12 سال کی تھی،  اُس نے گل مکئی کے نام سے بلاگ لکھنا شروع کردیا۔ بلاگ سے مراد آن لائن ویب سائٹ کے ذریعے مضامین کی تحریر ہے جو آج کل ہرکس و ناکس کی دسترس میں ہوتی ہے۔

عام طور پر کسی بلاگ کو کوئی کم پڑھا لکھا شخص کبھی نہیں پڑھتا، اس لیے خود ملالہ یوسفزئی کے علاقے میں بلاگر کی حیثیت سے اس کی کوئی پہچان نہ بن سکی، تاہم عالمی سطح پر اچانک اُسے شہرت ملنا شروع ہو گئی۔

ہوا کچھ یوں کہ نیویارک ٹائمز سے تعلق رکھنے والے ایڈم بی ایلک نامی صحافی نے بلاگ کے ذریعے ملالہ سے شناسائی حاصل کرنے کے بعد اس کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری بنا ڈالی جس سے ملالہ مشہور ہو گئی۔

میڈیا کا ملالہ کی شہرت میں کردار

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے ملالہ کی ایک ایک بات کو بے حد پذیرائی بخشی کیونکہ مغربی صحافی کی طرف سے ڈاکومنٹری کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ جب ملالہ مشہور ہوئی تو اس کے انٹرویو ٹی وی اور اخبارات سمیت مختلف ذرائع ابلاغ سے عوام تک پہنچتے رہے۔

لوگ ملالہ سے مختلف سوالات پوچھتے رہے اور وہ جوابات دیتے دیتے مزید مشہور ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ملالہ کا نام بچوں کیلئے عالمی امن ایوارڈ کیلئے بھی پیش ہوا جس کے بعد ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔

کیا ملالہ واقعی پاکستانی ہے؟ 

یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کیونکہ جب ملالہ پر تحقیق کی گئی تو یو ٹیوب سمیت مختلف ذرائع ابلاغ پر ویڈیوز اور کالمز کی صورت میں بہت سا مواد ملا جس میں ملالہ کی کہانی پر مختلف بڑے بڑے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

بعض جگہ ہمیں یہ بات پڑھنے کو ملی کہ ملالہ پاکستانی نہیں بلکہ اس کا تعلق پولینڈ سے ہے جبکہ اس پر حملہ طالبان نے نہیں بلکہ اٹلی کے کسی فرد یا بلیک واٹر کے کارندوں نے کیا اور گولیاں اِس طرح ماریں کہ وہ مرنے کی بجائے بچ جائے۔

اگر سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بلیک واٹر کی کارروائی بھی ہوسکتی ہے جس کا مقصد مبینہ طور پر وزیرستان میں پاکستانی فوج کی پیش قدمی روکنا اور افغانستان میں امریکا کیلئے راہ ہموار کرنا تھا۔ اِن تمام تر متنازعہ اندازوں کو حقیقت سمجھا جائے یا نہیں، اِس کا فیصلہ آئی ایم ملالہ پڑھنے کے بعد لگایا جاسکتا ہے۔

آئی ایم ملالہ کیا ہے؟

ملالہ یوسفزئی کی خودنوشت آئی ایم ملالہ ایک متنازعہ کتاب ہے جس کا ثبوت اِس بات سے دیا جاسکتا ہے کہ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن نے پاکستان میں اِس کتاب پر پابندی عائد کردی۔ تنظیم کے عہدیداروں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ملالہ کے نقشِ قدم پر چل کر اُس کی طرح بنیں۔

دوسری جانب وہ میڈیا جو ملالہ یوسفزئی کو قوم کیلئے رول ماڈل قرار دے رہا تھا، خود آئی ایم ملالہ پر تنقید کرتا ہوا پایا گیا جس کی وجہ کتاب میں اسلام کے بارے میں عدم احترام کا رویہ یعنی نبی یا صحابی کے نام سے قبل حضرت کا اضافہ نہ کرنا اور قائدِ اعظم کا عدم احترام بھی ہے۔

اگر ہم آئی ایم ملالہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ملالہ یوسفزئی نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کا پورا نام لکھنے یا انہیں بابائے قوم یا بانئ پاکستان کہنے کی بجائے صرف جناح کہہ کر مخاطب کیا جو سراسر ایک مغربی سوچ دکھائی دیتی ہے جس پر کی جانے والی تنقید اپنی جگہ درست سمجھی جاسکتی ہے۔ 

تعلیم کے نام پر قادیانیت 

قادیانی مسلمانوں کا کوئی فرقہ نہیں ہے بلکہ آئینِ پاکستان میں قادیانیت کے خلاف واضح قانون موجود ہے جو یہ کہتا ہے کہ کیونکہ قادیانی حضورِ اکرم ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے، اس لیے وہ مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔

ملالہ یوسفزئی کی کتاب آئی ایم ملالہ میں سلمان رشدی اور قادیانیوں کا عزت و احترام کے ساتھ ذکر ملالہ کے قوم کی بیٹی ہونے کو متنازعہ بنادیتا ہے، اس لیے سب سے پہلے خیبر پختونخوا کے دکاندار اِس کتاب کے خلاف ہو گئے۔

خیبر پختونخوا کے اُسی علاقے میں جہاں ملالہ کے بقول وہ پیدا ہوئی تھی، آئی ایم ملالہ فروخت نہیں کی جاسکتی۔ دوسری جانب نجی اسکول پہلے ہی کتاب کے خلاف تھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ملالہ ایک متنازعہ کتاب ہے۔

حملہ اور اعزازات کا دور

سن 2012ء میں 9 اکتوبر کے روز ملالہ یوسفزئی پر ایک شخص نے 3 گولیاں چلائیں۔ کئی روز تک ملالہ کو ہوش نہ آیا اور بعد ازاں وہ کوئین الزبتھ ہسپتال بھیجی گئی۔ قاتلانہ حملے کے باعث ملالہ یوسفزئی مزید مشہور ہوئی۔

جنوری 2013ء میں ملالہ کے بارے میں ڈوئچے ویلے نے لکھا کہ ملالہ دنیا بھر میں مشہور ترین کمسن بچی ہے۔گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ میں آئی ایم ملالہ کے نام سے پٹیشن جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام بچوں کو اسکول بھیجا جائے۔ پھر پاکستان میں تعلیمی بل منظور ہوگیا اور 29 اپریل کو ملالہ دنیا کے 100 بااثر ترین افراد میں شامل ہوگئی۔

پاکستان میں پہلا یوتھ پیس پرائز بھی ملالہ یوسفزئی کو ملا۔ سویڈن میں 2014ء میں ملالہ چلڈرن پرائز کیلئے نامزد ہوئی۔ اسے 2014ء میں ہی ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی جو ہیلی فیکس کی یونیورسٹی آف کنگز کالج نے دی۔

برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے ملالہ کے اقوامِ متحدہ سے خطاب کو ممکن بنایا۔ ملالہ فنڈ بھی قائم کیا گیا جس کو مغربی اداکارہ انجیلینا جولی سپورٹ کرتی ہے۔ فنڈ کے بورڈ میں گوگل کا نائب صدرمیگن سمتھ تک شامل ہے۔ 

Related Posts