سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں آغا خان کی تعلیمی کاوشیں

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کے سنگلاخ پہاڑوں کو چیر کر گزرتی ہوئی  قراقرم ہائی وے نامی تاریخی شاہراہ  کی تعمیر 60ء کی دہائی میں شروع کی گئی۔ 60ء کی دہائی میں  پاکستان آرمی کے انجینئرزنے جان جوکھوں میں ڈال کر دلجمعی کے ساتھ اس سڑک کی تعمیرکا آغاز کیا۔ 

خنجراب ٹاپ پر پہنچنے کا راستہ اتنا دشوار تھا کہ پاک فوج کے انجینئرز چین کی طرف اتارے گئے  اوروہاں سے روڈ کا سروے کرتے  اور کچا راستہ بناتے ہوئے پاکستان کی طرف نیچے اترنا شروع ہوگئے۔ خنجراب ٹاپ سے فقط 55 کلومیٹر دوری پر سوست نامی قدیم علاقہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایف آئی اے نے ٹک ٹاکر صندل خٹک کو کیوں گرفتار کیا؟

سوست کی آبادی تقریباً 2 ہزار 500 نفوس پر مشتمل  ہے۔اس گاؤں کی بلندی  سطحِ سمندر سے 9 ہزار131 فٹ  سے زائد ہے۔ قراقرم ہائی وے پر یہ انسانی آبادی کی آخری حد ہے جس سے آگے پرندے بھی سانس لینے میں دشواری محسو س کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے بعد پرندے نظرنہیں آتے۔  

1960ء کی دہائی میں پرنس کریم آغا خان کی بصیرت افروز شخصیت نے گلگت بلتستان  کے علاقے میں قدم رکھا اور 23  اکتوبر 1960ء کو ان دور افتادہ علاقوں میں پہلی بار تشریف لائے۔ ان کے پیشرو اور دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے 1946ء میں تعلیم کی اشد ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پہلا آغا خان اسکول قائم کیا، اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے مریدوں کو تلقین کی کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں، دونوں کو تعلیم دیں اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ کرسکیں تو اپنی بیٹیوں کی تعلیم کو زیادہ ترجیح دیں جبکہ اس وقت تعلیمی سہولیات ناپید تھیں، عوام کی بڑی تعداد رزق کی تگ و دو میں مصروف تھی اور خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔

سوست نامی یہ  مقام قراقرم ہائی وے کے ساتھ انسانی  رہائش کے آخری پڑاؤ کی نشاندہی کرتاہے۔ پرنس کریم آغا خان نے یہاں کے لوگوں کے لیے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا۔ ان کے بصیرت انگیز اقدام کے نتیجے میں اس خطے میں شرح  ِخواندگی حیرت انگیز حد تک بلند ہوئی ہے جس سے  ان افراد کی زندگیوں میں انقلابی  تبدیلی رونما ہوئی جنہوں نے  یہاں کٹھن ترین حالات  برداشت کیے ہیں۔ ان لوگوں نے نہ صرف ذاتی طور پر ترقی کی بلکہ اپنی شخصیات میں ایک عظیم انقلاب لے کر آئے ہیں جو یہاں کے طرزِ زندگی میں باآسانی  دیکھا جاسکتا ہے۔

قابلِ ذکر بلکہ خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے  کہ  نہ صرف سوست  بلکہ ہنزہ کے پورے علاقے میں شرحِ خواندگی  100 فیصد کو جا پہنچی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ  عوام کی بڑی تعداد علم کی اہمیت کو نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ تعلیم کے  زیور سے آراستہ ہو کر اس کے فوائد سے کَمَاحَقّہٗ مستفید بھی ہورہی ہے۔  زندگی کے تمام شعبوں  میں نہ صرف اپنے اور اپنے خاندان کا بلکہ اس ملک کا نام روشن کرنے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ پچھلے 6 سالوں کے دوران آغا خان یونیورسٹی اور ذیلی اداروں نے اسکول  امپروومنٹ کا نیا پروگرام شروع کیا اور کئی اسکیموں  سمیت  ایک  ایسا معاون پروجیکٹ قائم کیا جس  کے تحت آج گلگت بلتستان کے 210 اسکولوں میں آغا خان یونیورسٹی کا پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر کا ادارہ پیشہ ورانہ طریقے سے گلگت بلتستان کے اساتذہ کرام کی تربیت اور صلاحیتوں میں اضافہ کرکے پورے علاقے کی قابلیت میں کلیدی کردا ر ادا کررہا ہے ،جس نے عوام کو ترقی پسند سوچ عطا کی اور جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے لاکھوں افراد اور خاندانوں کی سوجھ بوجھ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ یہ پراجیکٹس آغا خان کے ڈائمنڈ جوبلی اسکولز کا تسلسل کہے جاسکتے ہیں جو کہ 1940ء کی دہائی میں بننا شروع ہوئے، ان میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ آغا خان یونیورسٹی کے تحت پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹرنے گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 887 اسکولز کے 7 ہزار 328 اساتذہ کو معاونت فراہم کی ، نتیجتاً 1 لاکھ 9 ہزار 927 طلبہ و طالبات کی زندگیوں میں دورِ حاضر سے ہم آہنگ تعلیم کے چراغ روشن ہوئے اور پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آئی۔

آغا خان یونیورسٹی کے نئے صدر سلیمان شہاب الدین کی توجہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں میں علم کی روشنی کو ابھارنے کو اوّلین ترجیح دینے پر مرکوز ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ معاشرے کے تعلیم سے آراستہ افراد ہی ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ ایسی حیرت انگیز پیش رفت ہے جو ماضی اور حال کے معیارِ زندگی کے درمیان زمین آسمان کے فرق کو اجاگر کرتی ہے۔جناب آغا خان کی مہیا کردہ تعلیمی  سہولیات کی بدولت اس علاقے سے تعلق رکھنے والے   ہماری قوم کے نوجوانوں نے پاکستان کے ہر حصے اور ہر علاقے میں خدمات انجام دینا شروع کر دی ہیں، یہاں تک کہ جہاں پرندے بھی سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، ملک کے باصلاحیت اور ہونہار نوجوانوں نے نہ صرف تعلیم حاصل کی  بلکہ اپنے معاشرے کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئےبھی جانفشانی سے کام کر نے میں مصروف ہیں۔

آغا خان یونیوسٹی اور اس کے ذیلی اداروں کی اپنی کاوشوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو معاونت فراہم کرنے کے سبب سوست سمیت  گلگت بلتستان کے پورے خطے میں تعلیمی انقلاب آچکا ہے جہاں کا تعلیمی نظام ملک کے تمام صوبوں کے مقابلے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ خواندگی کی شرح میں بھی اس علاقے نے دیگر تمام خطوں اور صوبوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ راقم الحروف کو یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب حکومت ِ پاکستان آغا خان کے مختلف ممالک میں نافذ العمل  ماڈل کی افادیت  سے فائدہ اٹھائے گی اور اسی طرح کے طرزِ عمل سے استفادہ حاصل کرسکے گی۔ آغا خان  یونیورسٹی اور ذیلی ادارے ان کوششوں کی حمایت کرنے میں یقیناً تسکین حاصل کریں گےجس سے ملک بھر کے اسکولوں  کا معیارِ تعلیم بلند ہوسکے ۔ 

اگر ان ماڈلز کو اپنا لیا جائے تو دیگر صوبوں میں تعلیم کا معیار بلند ہو سکتا ہے، جو گلگت بلتستان میں ہونے والی فقید المثال  تعلیمی ترقی کو پاکستان کے دیگر خطوں میں منطبق کرنے کا باعث بن سکے گا۔ گلگت بلتستان کا خطہ متنوع  عقائد کے حامل افراد کی آماجگاہ ہے  جن میں شیعہ، سنی، دیوبندی اور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔ قابلِ ستائش اور قابل ِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ مختلف المسالک افراد تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی مساجد اور عبادت گاہوں کے ذریعے عطیات دے کر اسکولوں کی فلاح و بہبود کے لیے جوش وخروش سے حصہ ڈالتے ہیں اور ہر مکتبۂ فکر کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اورتعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ تعلیم کے معاملے میں اپنے فرقہ وارانہ احساسات کو بالائے طاق  رکھتے ہوئے یہ احسن اقدام اٹھاتے ہیں۔

محترم آغا خان خود اسکولوں کی بہتری کے لیے  تعلیمی اداروں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ 1940ء کی دہائی میں ہنزہ میں افتتاح کیے گئے ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں نے شرح خواندگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہمارے ملک کے نوجوان  ان رہنما تعلیمی اصولوں پر تربیت یافتہ  ہو جائیں تو  اٹوٹ لگن کے ساتھ اپنے ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ ملک بھر کے  12 کروڑ  نوجوانوں  کیلئے آغا خان   یونیورسٹی کا تعلیمی تصور مشعلِ راہ ہے جس سے ملک کے تعلیمی منظر نامے کو تقویت ملتی ہے۔ ماضی میں جس عزم و ہمت کے ساتھ   ہنزہ میں ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا، وہ دنیا میں دیگر علاقوں کی طرح آغا خان   کی جانب سے علاقے کی  شرحِ خواندگی  میں اضافہ کرنے کے عزم کا بین ثبوت ہے۔ یہ ادارے  تعلیمی رجحانات  کو فروغ دینے اور نوجوان ذہنوں کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان خطوط پر تعلیم و تربیت فراہم کر کے آغا خان یونیورسٹی  اور ذیلی ادارے دیگر حکومتی تعلیمی اداروں  کی معاونت میں پیش پیش ہیں، نتیجتاً ایک ایسی نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو تعلیم سے آراستہ ہو کر اپنے ملک اور قوم کی غیر متزلزل لگن کے ساتھ خدمت کرنے کے لیے تیار ہوچکی ہے۔ یہاں کے لوگ ایک ایسی مضبوط تعلیمی قوت کی نمائندگی کرتے ہیں  جسے نقشِ قدم سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کی جائے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ تعلیم کی طاقت کے ذریعے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جو قوم کے روشن مستقبل کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ حکومت تعلیمی میدان میں آغا خان کی انتھک اور کامیاب کاوشوں   کے مؤثر نمونوں سے فائدہ اٹھائے ۔ اس ضمن میں آغا خان کے تعلیمی اداروں کا تعاون    بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے جو اس  بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک بھر کے اسکول ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں کی طرح معیارِ تعلیم اور ذہنی نشوونما کی اعلیٰ بلندیوں کو حاصل کرسکیں تاکہ من حیث القوم اس ملک میں بسنے والی  عوام الناس کے معیارِ زندگی کو بھی بہتر بنایاجاسکے۔

محترم آغا خان کی تقلید کرنے والی برادری کے جماعت خانے ہوں یا گلگت بلتستان کے اندر موجود مساجد ، آج  خطے میں  یہ تمام مذہبی مقامات معاشرتی اداروں کی صورت اختیار کرچکے ہیں  جس کی ایک مثال اسلام کے ابتدائی ادوار سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے  ، یہ معاشرتی ادارے تعلیم کو ترویج دینے کے عظیم مقصد میں نہ صرف اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ اسکولوں کی عام فلاح بہبود کیلئے بھی ہر ممکن کوشش و کاوش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تعلیم کے میدان میں طویل المدت منصوبہ بندی سے آغا خان نے ایک ایسی زبردست مثال قائم کی ہے جو تعلیم کیلئے ان کی غیر متزلزل وابستگی کو عیاں کرتی ہے جس پر زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں ان کی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔ تعلیم کی عظیم طاقت نہ صرف عوام کو بااختیار بلکہ پورے کے پورے معاشرے کی مجموعی ترقی کو یقینی بنادیتی ہے۔مسلمان قوم کی کھوئی ہوئی قوت کو اگر واپس لانا ہے تو مسلمانانِ ملت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ضروری ہے اور یہی اسلامی تعلیم کا مظہر ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی قرآنی وحی میں اللہ تعالیٰ نے  اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَo فرما کر بنی نوع انسان کیلئے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کردیا۔

ضروری ہے کہ حکومتِ پاکستان تعلیم کے ان کامیاب ماڈلز کو اپنائے ۔ اس طرح ایک ایسے پاکستان کا خواب دیکھا جاسکتا ہے جہاں نوجوان اپنی تقدیر بدلنے کیلئے تمام ضروری آلات سے لیس ہوں جن میں تعلیم کو اوّلیت حاصل ہے۔ اس طرح ایک ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دیا جاسکتا ہے جو علاقائی  اور فرقہ وارانہ حدود و قیود سے بالاتر اور زندگی بھر علم حاصل کرنے کی لگن رکھنے والی قوم کو پروان چڑھائے  اور پھر یہ قوم ہر پہلو سے مستقبل کے تمام تر چیلنجز سے نمٹنے کیلئےتیار ہو۔  

Related Posts