وزارت خارجہ کی جانب سے قلیل وقت میں او آئی سی کا اجلاس انتظام وا نصرام سنبھالنا یقیناً قابل ستائش اقدام ہے،سعودی عرب کی دعوت پر پاکستان نے اجلاس کی میزبانی قبول کی اور افغانستان کے بحران پرایک مرتبہ پھر41 سال بعد شاندار اجلاس کی میزبانی کرکے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا۔
او آئی سی ایک ریجنل فورم ہے اور ایسے فورمز کو اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہوتی ہے ۔اقوام متحدہ کے چارٹرکے باب 8 کے تحت ان ریجنل آرگنائزیشنز کا قیام عمل میں لایا جاتاہے۔
ماضی قریب میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کی منسوخی کے بعد پاکستان میں سیکورٹی کے مسائل پر دنیا کی بلاوجہ تشویش جاری تھی لیکن اس اجلاس نے پوری دنیا کو پاکستان کے ایک پرامن ملک ہونے کا تاثر دیا ہے اور اس شاندار اجلاس کے سیکورٹی انتظامات میں عسکری اداروں کا کردار بھی قابل تحسین ہے۔
افغانستان کے حوالے سے او آئی سی کا اجلاس اپنی نوعیت کا ایک منفرد اجلاس تھا جس میں بڑی تعداد میں کلیدی ممالک کے مبصرین، پی فائیو ممالک، آسٹریلیا، اٹلی، جاپان اور دیگرممالک کے نمائندگان اور مالیاتی اداروں کے اہم عہدیداروں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نمائندہ کی شرکت بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور انہوں نے اجلاس میں اہم اعلانات بھی کئے جن کا فائدہ بلاشبہ افغانستان کو ہوگا۔
او آئی سی کی بات کی جائے تو تنظیم کے چارٹرپہلے ہی باب میں لکھا ہے کہ اگر کوئی ممبرملک کسی انسانی بحران کا شکار ہوجائے تو مسلم امہ اس کی مدد کریگی تو اس لحاظ سے تو یہ خوش آئند ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے افغانستان کے عوام کی مخدوش صورتحال میں مدد کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
پاکستان نے افغان عوام کی مدد کیلئے 6 نکاتی فریم ورک کی تجویز پیش کی جس میں او آئی سی ممالک کو فوری طور پرافغان عوام کی مدد ، تعلیم ،صحت اورتکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری ،معاشی وبینکاری نظام کو مستعد،منشیات کے خاتمے کیلئے افغان اداروں کی استعدادکار بڑھانے،افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر افغان حکام کے ساتھ بات چیت اوردہشت گردی کی روک تھام کیلئے افغان حکام سے مل کرکام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔پاکستان کی پیش کردہ تجاویز پر اجلاس میں نہایت سنجیدگی سے غور کیا گیا 3 نکات کو قرار داد کا حصہ بنایا گیا تاکہ افغان عوام کی مدد کیلئے راستہ بنایا جاسکے۔اس حوالے سے اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے ایک ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا۔
او آئی سی کے اجلاس میں افغان طالبان کو بھی ان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم پیغام دیا گیا جس کا کہ ذکر دوحہ معاہدے میں موجود ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک کیلئے خطرہ بننے والے القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو افغان سرزمین پر ناکارہ بنانا، دہشت گردی کیمپس یا بھرتیوں اور پناہ گاہوں کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔
یہ قابل غور بات ہے کہ طالبان کو وعدوں پر عملدرآمد میں کیا مشکلات درپیش ہیں اور ممکن ہے کہ اس اجلاس کے ذریعے طالبان نے دنیا کو اپنی دشواریوں سے بھی بند کمرہ اجلاسوں میں آگاہ کیا ہوگااور دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ اپنا موقف پیش کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔
اجلاس میں پاکستان نے اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ اگر ان کو طالبان حکومت سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ اپنی جگہ لیکن یہاں افغان عوام کی بقاء اور انسانی حقوق کاسوال ہے جہاں 22اعشاریہ 8 ملین لوگوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر سہولیات میسر نہیں ہیں اور ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ لوگ بھوک سے مرنا شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ 20سال میں امریکا افغان جنگ میں بھی شاید اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا، جتنا کہ آنیوالے وقتوں میں بھوک اور افلاس سے لوگ جاں بحق ہوسکتے ہیں۔
اگر اس مسئلے کا حل نہ تلاش کیا گیا تو افغانستان میں سول وار شرو ع ہونے کا سنگین خطرہ ہے۔ وہاں نان اسٹیٹ ایکٹرز پوری دنیا سے آنا شروع ہوجائیں گے اور پھر نہ امریکا سنبھال سکے گا نہ ہی یورپ، کیونکہ دنیا میں نائن الیون جیسے واقعات کا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے جس پر امریکا اور یورپ کو فکر لاحق ہونا شروع ہو گئی ہے کیونکہ وہاں ڈومیسٹک پریشر بڑھ رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن تک اپنے ہی سینیٹرز اور جرنیلوں کے ذریعے سفارشات پہنچ گئی ہیں۔
میری کچھ سفیروں سے بات چیت ہوئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے او آئی سی کے متعلق مثبت سگنلز اپنے اپنے ممالک کو ارسال کیے ہیں جنہیں آپ خفیہ پیغامات کہہ سکتے ہیں جن میں تمام تر تفصیلات بھیجی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو او آئی سی کے قدرے مثبت اثرات رونما ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا میں جو کوریج ملی، اس سے بھی مثبت پیغامات کا اندازہ ہوتاہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب امداد کیلئے کمٹ منٹ کی باری آئی تو آواز صرف سعودی عرب اور پاکستان سے آئی کہ ہم تیار ہیں۔ اس کے علاوہ اجلاس کے دوران کسی ملک نے امداد کا واضح وعدہ نہیں کیا۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک کا پلیٹ فارم ضرور مل گیا ہے جس کے ذریعے افغانستان کو امداد میں آسانیاں پیدا ہوجائینگی۔
اندازہ ہوتا ہے کہ اس اجلاس کے بعد دنیا سے افغانستان کو امداد ملنا شروع ہوجائیگی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر او آئی سی چارٹر کے آرٹیکل 8کے تحت او آئی سی سربراہانِ مملکت کا اجلاس بلایا جاتا۔
سعودی عرب امریکا کے اتحادیوں میں شامل ہے، اس لیے سعودی عرب کا امریکا کی خارجہ پالیسی کے خلاف جانا مشکل ہے۔ہم خود کہتے ہیں کہ افغانستان سے دیگر ممالک میں دہشت گردی نہیں ہونی چاہئے۔ افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ سول سرونٹس کو تنخواہیں نہیں مل رہی۔ وہاں کے ادارے زوال پذیر ہیں ۔حالات کو کنٹرول کرنا طالبان کے بس سے باہر نظر آتا ہے کیونکہ جنگجو ہو کر لڑنا ایک الگ بات ہے اور جب تمام وسائل ضبط کرلئے جائیں تو کسی بھی ادارے یا حکومت کو چلانا اور کنٹرول کرنا ایک مختلف چیزہے ۔
امید ہے کہ طالبان کے وفد نے ضرور اپنا مؤقف پیش کیا ہوگا جس سے یہ امید ہوچلی ہے کہ اب کوئی لچک پیدا ہوگی اور طالبان نے بھی وعدہ کیا ہوگا کہ معروضاتی حالات کے پیش نظر مسائل کتنے عرصے میں حل ہوسکتے ہیں۔ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ ان کے ناصرف ان کے منجمد اثاثے اور امداد کی بحالی امور حکومت چلانے کیلئے ضروری ہے بلکہ امریکا اور اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم کئے بغیر حکومت کا کاروبار چلانا ناممکنات میں سے ہے۔
سنجیدہ حلقوں کی نظر میں اگر مستقبل قریب میں امریکااور اقوام متحدہ کی پابندیوں کو ختم نہ کیا گیا تو اس سے یہ اشارہ ملے گا کہ شائد امریکا اپنی خارجہ پالیسی کے تحت افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ نتیجتاً چائنہ کیخلاف منصوبے اورپالیسی کو تقویت مل سکے اور سی پیک جیسے منصوبے تعطل کا شکار ہوجائیں۔