دنیا کی سب سے بڑی افغان مہاجرین کی آبادی کی میزبانی کا دباؤ پاکستان کے سماجی و اقتصادی منظرنامے پر بہت زیادہ وزن ڈال رہا ہے، خاص طور پر جب یہ ملک اپنے شہریوں کے لیے ضروری خدمات کی فراہمی اور موثر حکمرانی کو برقرار رکھنے میں چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اندازوں کے مطابق، پاکستان اس وقت تقریباً 3.5 ملین افغان باشندوں کا گھر ہے، جن میں سے صرف 1.3 ملین ہی سرکاری طور پر مناسب حکام کے ذریعے مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔
منگل کو نگراں وفاقی کابینہ نے 11 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجنے کی منظوری دی جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔یہ فیصلہ نگراں کابینہ کے اجلاس میں،افغان مہاجرین میں سے کچھ افراد کے دہشت گردی، کرنسی اور کھادکی اسمگلنگ اور چینی جیسی اشیائے ضروریہ کی غیر قانونی تجارت سمیت مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر بڑھتے ہوئے خدشات کے تناظر میں کیا گیا۔
ان غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی ایک قابل ذکر اکثریت سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر ہے، جن میں سے 53% خیبر پختونخواہ اور 24% بلوچستان میں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین موجود ہیں، یہاں تک کہ آزاد جموں و کشمیر 4,500 سے زیادہ غیر قانونی افغان باشندوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ جب کہ افغان مہاجرین کی تعداد کئی سالوں سے کم ہو رہی تھی، طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے اور افغانستان میں ان کی اقتدار میں واپسی نے پاکستان میں نئے پناہ گزینوں کی ایک قابل ذکر آمد کا باعث بنا ہے۔ اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے بعد سے، 600,000 سے زیادہ نئے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے ہیں، جب کہ اسی عرصے کے دوران صرف 16,000 افغان اپنے آبائی ملک واپس گئے ہیں۔
مزید برآں، تازہ ترین جائزے کے مطابق، 2023 میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ فنڈنگ کی ضروریات کا 55 فیصد سے بھی کم پورا کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان پر ڈالے گئے غیر متناسب بوجھ کی نشاندہی کرتا ہے جو بڑی حد تک مغربی ممالک کے اقدامات سے ہوا تھا۔ افغانستان کو 1980 کی دہائی میں سوویت اور امریکی مداخلت کے نتیجے میں اور، بعد میں، 21ویں صدی میں امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد کی موجودگی کے نتیجے میں نمایاں عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کارروائیوں کے باوجود پاکستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
فی الحال، ان میں سے کئی مغربی ممالک افغان حکومت کی مالی معاونت یا پاکستان میں پناہ گزینوں کی امدادی کوششوں میں تعاون کرنے سے گریزاں ہیں۔اس کے علاوہ ان ممالک میں اپنی سرحدوں کے اندر بھی پناہ گزینوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، جس پر انسانی حقوق تنظیموں اور یہاں تک کہ ان کے اپنے قانونی نظاموں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔