جمالیاتی شعور/ تیسری اور آخری قسط

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

US and Russia: Breaking Traditions

اب ذرا اسی دین کے احکام کی باطنی جمالیات کی بھی دو مثالیں لے لیجئے

لندن کے ایک پبلک پارک میں کوئی فیسٹول جاری تھا۔ وہاں ایک اسٹال ایسے مسلم نوجوانوں کا بھی تھا جو رابطہ کرنے پر غیر مسلموں کو اپنے دین سے متعلق معلومات مہیا کر رہے تھے۔

ایک جوان خاتون ان کے پاس آکر کچھ معلومات ھاصل کرتی ہیں۔ بات پوری ہوجاتی ہے تو رخصت ہوتے وقت وہ مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیتی ہے۔ مسلم نوجوان مصافحے سے معذرت کر لیتا ہے۔ وہ خاتون حیران ہوجاتی ہیں کہ یہ تو عجیب مذہب ہے کہ مصافحے کے ہی خلاف ہے۔ ظاہر ہے پہلی نظر میں تو یہی لگا ہوگا۔ سو وہ اپنی حیرت کا اظہار سوال کی صورت کردیتی ہے کہ آپ کے مذہب میں ہینڈشیک کیوں منع ہے ؟ نوجوان مسکرا کر جواب دیتا ہے۔

“ہینڈ شیک ممنوع نہیں۔ کسی ایسی خاتون کو ٹچ کرنا ممنوع ہے جو ہماری ماں، بہن، بیٹی اور خالہ وغیرہ نہ ہو۔ یہ بندوبست ہمارے مذہب میں اجنبی عورت کی سیکیورٹی کے لئے ہے”

وہ خاتون دنگ رہ جاتی ہیں۔ وہاں سے رخصت ہوجاتی ہیں مگر پورا ہفتہ ان کے دل و دماغ میں ایک بھونچال کی سی صورتحال ہوتی ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ اس خاتون کو دو بار ریپ کرنے کی کوشش ہوچکی ہوتی ہے۔ اور اسے ورک پلیس پر ہراسمنٹ کا بھی سامنا رہتا ہے۔

یوں اس کے ذہن میں یہ خیال ہی بھونچال پیدا کردیتا ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسا مذہب بھی ہے جو جنسی ہراسمنٹ چھوڑیئے، عورت کو مصافحے کی صورت بھی چھونے تک کی اجازت نہیں دیتا۔ اتنا سیکیور مذہب ؟ وہ قرآن مجید کا مطالعہ شروع کردیتی ہیں کہ اس مذہب کو تو ذرا اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔

اور سال بعد اسلام قبول کر لیتی ہیں۔ کیا یہ خاتون کسی کی دعوت اسلام سے مسلمان ہوئیں ؟ نہیں یہ اتفاقی طور پر نظر آجانے والے اسلام کے ایک باطنی حسن کی محض ایک جھلک سے متاثر ہوئیں۔

دوسری مثال دیکھئے

دعوت دین سے جڑی نو مسلم امریکی خاتون ڈاکٹر لیزا کلینجر سے ایک غیر مسلم خاتون کی جانب سے سوال ہوتا ہے”کیا یہ بات درست ہے کہ اسلام عورت کو کم حقوق دیتا ہے ؟”

وہ جواب دیتی ہیں”میں آپ کو صرف ایک مثال دیتی ہوں، آپ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ اسلام پر یہ الزام درست ہے یا غلط ؟ اسلام شادی شدہ عورت سے کہتا ہے، تمہارے شوہر کے مال میں تمہارا حق ہے۔ یہ تمہارے خرچے کا ذمہ دار ہے۔ اگر یہ ذمہ داری ادا کرنے میں یہ ڈنڈی مارے تو تم اسے کورٹ میں بھی کھینچ سکتی ہو۔

جمالیاتی شعور/ پہلی قسط

اپنے اس حق کو وصول کرنے کے لئے تم ہر حد تک جاسکتی ہو۔ اور ساتھ ہی ایک بات اور کرتا ہے۔ وہ یہ کہ بیوی سے کہتا ہے، تمہارے پاس جو تمہاری ذاتی رقم ہے۔ یہ صرف تمہاری ہے۔ اس کے ایک ٹکے پر بھی تمہارے لائف پارٹنر کا کوئی حق نہیں۔ اگر یہ اس میں کوئی خیانت یا زور زبردستی کرے تو اس صورت میں بھی تم اسے کورٹ میں کھینچ سکتی ہو۔

حتیٰ کہ بچوں کے اخراجات میں بھی تمہیں اپنی رقم ملانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنے شوق سے ملانا چاہو تو الگ بات ہے۔ لیکن تم اس کی پابند نہیں ہو۔ اولاد کے بھی سارے خرچوں کا ذمہ دار تمہارا لائف پارٹنر ہے۔ تمہاری رقم بس صرف تمہاری ہے۔ موج کرو۔ کیا ایسے اصول ایسے مذہب کے ہوتے ہیں جو عورت کا حق مارتا ہو ؟”

ذرا غور کیجئے یہ باطنی حسن کی کتنی اعلی مثال ہے ؟ڈاکٹر لیزا نے صرف شرعی مسئلہ بیان نہیں کیا بلکہ اس کے باطنی حسن کو بھی کھولا۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جمالیات کے بغیر بات میں تاثیر ہی پیدا نہیں ہوتی۔حسن نظر آئے گا تو کشش محسوس ہوگی۔ ورنہ نہیں۔

اب آجایئے جمالیات کے دوسرے سرے کی جانب۔ وہ سرا جہاں انسان اور اس کی تخلیق کردہ جمالیاتی دنیا پھیلی ہوئی ہے۔ اس سیریز کی پہلی قسط میں گزرا یہ جملہ یاد ہے “انسان نے قبر کھودنی بھی کوے سے سیکھی” ؟ انسانی جمالیات کسی بھی انسپریشن سے خالی نہیں۔ یہ اپنی پوری حیات میں ایک بھی چیز ایسی ایجاد یا تخلیق نہیں کرسکا جس کی انسپریشن اس نے قدرتی جمالیات سے نہ لی ہو۔

اس کی مدد کے بغیر ایک قدم چلنا تو دور، یہ ایک قدم اٹھا تک نہیں سکتا۔ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ یہی کہ انسان کے تخلیق کار، سائنسدان ، انجینئر، شاعر، نثر نگار، موسیقار غرضیکہ کسی بھی نوع کے تخلیقی عمل کا آدھا دارومدار جمالیاتی شعور پر ہے۔ اگر انسان سے جمالیاتی شعور چھین لیا جائے تو خالی علم اس سے کچھ بھی تخلیق نہیں کروا سکتا۔ سو تخلیقی عمل کے لئے سائنس یا کوئی بھی متعلقہ علم اور جمالیاتی شعور دونوں لازم ہیں۔

انسان کا تخلیق کار ہونا خود اللہ سبحانہ و تعالی کو اس شدت سے مطلوب ہے کہ وہ بار بار قرآن مجید میں انسان کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں “تم اس کائنات میں غور کیوں نہیں کرتے ؟” کبھی فرماتے ہیں “کیا تم دیکھتے نہیں ؟” پھر اللہ چیزوں کے نام لے لے کر بھی اسے انسپریشن دیتے نظر آتے ہیں۔

آسمان، زمین، پہاڑ، سمندر، دریا اور ان میں موجود قدرتی آرٹ کی جانب متوہ کرتے ہیں کہ نہیں ؟ حتیٰ کہ ایسی چیزوں کی جانب بھی متوجہ کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت نظر ہی نہ آتی تھیں۔ مثلا بروج ؟ آج اس پر پورا علم بروج کھڑا ہے کہ نہیں ؟ یہ انسپریشن ثابت کرتی ہے کہ اللہ کو اپنے بندے کا تخلیق کار ہونا مطلوب ہے۔

اور اس لئے مطلوب ہے کہ اس تخلیقی عمل کے نتیجے میں اس کی زندگی بھی آسان ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی اس کا اپنے خالق سے تعلق بھی مزید مضبوط ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ اس کا صرف مادی نہیں روحانی سفر بھی ہے۔

اب یہیں سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ مسلم دنیا سے صرف جمالیاتی شعور کے کوچ کرجانے کا ہی نتیجہ یہ ہے کہ اسے بدترین زوال کا سامنا ہے۔ اور وہ یوں کہ کوئی بھی انسانی خیال اگر ایک ہی حالت میں رہے تو یہ کچھ ہی عرصے بعد گل سڑ کر ضائع ہوجاتا ہے۔

چنانچہ اس کی بقا کے لئے لازم ہے کہ اسے ریفریش اور مسلسل اپڈیٹ کیا جاتا رہے۔ اگر خیال ایک ہی حالت میں رکا تو اس کا ضائع ہونا طے ہے۔ پھر چاہے وہ خیال جمالیاتی شعور کی نسبت سے ہو خواہ علمی شعور سے تعلق رکھتا ہو۔ اب تخلیقی عمل میں تو کلیدی کردار ہی جمالیاتی شعور کا ہے۔ سو جب جمالیاتی شعور ہی کوچ کرگیا تو پھر علم کا گلنا سڑنا طے تھا۔

چنانچہ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ اب نہ تو ہم میں بڑا عالم پایا جاتا ہے اور نہ ہی آج کے ماڈرن علوم میں ہمارا کوئی حصہ ہے۔ ہمارا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ کوئی اور کچھ تخلیق کرے اور ہم اسے چند ٹکوں کے عوض خرید کر اس پر فخر کرسکیں کہ میرے پاس آئی فون کا جدید ترین ماڈل ہے۔

اور پھر غضت دیکھئے کہ ہم میں سے جسے یہ خوش فہمی لاحق ہو کہ وہ بہت ماڈرن ہے۔ اس کے پاس اپنے ماڈرن ہونے کے اظہار کے لئے یہ احمقانہ طرز عمل رہ گیا ہے کہ مغرب کی کوئی چیز اٹھائی، اس پر فخر کے دو جملے کہے۔ اور پھر مسلم دنیا کو طعنہ دیدیا کہ مغرب نے تو وہ وہ کرلیا اور ہم یہ یہ ہیں۔ ذرا شعور کا اندازہ لگایئے کہ مغربی سائنسدان کا کارنامہ اٹھا کر طعنہ مولوی کو دیں گے کہ اس نے تو یہ ایجاد کر لیا اور تم لوٹا ہاتھ میں لئے کھڑے ہو۔

اس گدھے کو اتنی بھی عقل نہیں کہ مغرب کی ایجادات ان کے پادریوں نے نہیں سائنسدانوں نے کی ہیں۔ سو اگر طعنہ دینا ہی ہے ڈاکٹر پرویز ہودبائی کو دیجئے نہ کہ مولوی کو۔

رعایت اللہ فاروقی کے گزشتہ کالمز پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

مگر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ طعنے کا یہ بے دریغ استعمال کرنے والے کا ترقی کے عمل میں اپنا حصہ کتنا ہے ؟ وہ ایسی کونسی سرگرمی سے جڑا ہے جس سے مسلم شعور کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں ؟ روٹی کی جگہ برگر کھانے کو ترقی سمجھنے والے اس شعور کو بھی احساس زیاں نہیں۔ احساس زیاں چھوڑیئے یہ تو کامن سینس سے ہی فارغ ہے۔

یہ طعنے بازیاں بند کرکے اصل کام پر لگنا ہوگا۔ اور کرنے کا کام یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی جمالیاتی شعور کے حصول کی کوشش کرنی ہوگی۔ بچے کا تعلیمی عمل ہم “کلرنگ” سے شروع کراتے ہیں کہ نہیں ؟ اسے تعلیم کیا عام استعمال کی اشیاء بھی ایسی مہیا کرتے ہیں کہ نہیں جو اس کے جمالیاتی شعور کو ابتدائی لمس مہیا کرے ؟ جو اس میں بالکل ابتداء سے ہی انسپریشن پیدا کردے۔

اب آپ کی عمر بچوں والی تو نہیں سو جمالیاتی شعور پیدا کرنے لئے آپ کی سرگرمی آپ کی عمر کے لحاظ سے ہوگی۔ اگر ذہن جمالیاتی شعور رکھتا ہو تو پھر وہ قدرتی جمالیات سے انسپائر ہوکر مجازی جمال یعنی انسانی تخلیقات کی جانب آتا ہے۔ اور تخلیقی سرگرمی شروع کرتا ہے۔ لیکن اگر جمالیاتی شعور نہ ہو تو پھر مناسب راستہ یہی بچتا ہے کہ مجازی جمالیات یعنی انسانی تخلیقات کا شعور حاصل کرکے قدرتی جمالیات کی جانب جایا جائے۔ اور وہاں سے انسپائر ہوکر واپس مجاز کی جانب آکر اپنا تخلیقی سفر شروع کیا جائے۔

مثلاً صوتی جمال کا شعور آپ کو کوئی اچھا موسیقار یا مستند گائیک مہیا کرسکتا ہے۔ فی الحال آپ میوزک بس سن رہے ہیں۔ چونکہ اس میں ایک ردھم اور نرنم پایا جاتا ہے تو آپ کو بھلا لگتا ہے۔ مگر یہ تو آپ سرے سے جانتے ہی نہیں کہ آرٹ کے اس نمونے میں کتنی عجیب و غیرب باریکیاں اور ہنرمندیاں موجود ہیں۔

سُر کیا ہیں ؟ کتنے ہیں ؟ ان کی لینتھ کتنی ہے ؟ پھر نوٹس کسے کہتے ہیں اور ان کے مدارج کیا ہیں ؟ راگ کیا ہوتا ہے ؟ اس کی اقسام کتنی ہیں ؟ اور ان کی معنویت کیا کیا ہے ؟ اگر گلوکار بننا آپ کی ترجیح نہیں بھی ہے تو تب بھی موسیقی یعنی صوتی جمال کا شعور تو آپ کے پاس ہونا چاہئے تاکہ آپ اس جمال کا حقیقی لطف لے سکیں۔ اور آپ کے جمالیاتی شعور نشو ونما ہوسکے۔

مغرب میں میوزک کلاسز ضروری کیوں ہیں ؟ کیونکہ میوزک کا شعور سب کے لئے ضروری ہے۔ بعینہ رنگوں کا بھی معاملہ ہے۔ آپ کو کسی بھی آرٹسٹ سے یہ سیکھنا چاہئے کہ پینٹنگز کی جمالیاتی ساخت کیا ہوتی ہے ؟ رنگوں کے معانی و مطالب کیا ہیں ؟ آرٹ کے کسی نمونے میں کسی لفظ کے استعمال کے بغیر محض رنگوں کی مدد سے بڑے بڑے معانی کیسے تخلیق کر لئے جاتے ہیں ؟ رنگوں کی یہ زبان سیکھیں گے تو قدرتی رنگوں کے معانی کھلیں گے۔ اور پتہ چلے گا خلاق العالمین اپنے آرٹ کے نمونوں میں ہمیں کیا کیا پیغام دے رہا ؟

ہم نے موسیقی اور پینٹنگ کے نام صرف بطور مثال پیش کئے ہیں۔ ورنہ فلم ڈرامہ، شاعری، نثر سمیت آرٹ کی تمام اقسام کا بنیادی شعور ھاصل کرنا ضروری ہے۔ تب جا کر جمالیاتی شعور حاصل ہوگا۔ اور تب جا کر آپ جس شعبہ حیات میں بھی ہوں اس میں کوئی بڑا کام کرنے کے لائق ہوسکیں گے۔

ورنہ خالی خولی نوکریاں آپ کو بس ایک ملازم کے مقام پر رکھ کر 35 سال بعد ریٹائرڈ کردیں گی۔ اور آپ کا کل تعارف یہ ہوگا کہ یہ بزرگ ساری زندگی بس ایک نوکر رہا۔ سو یہ جو دو ٹکے کی نوکریوں کے لئے میرا کیریئر، میرا مستقبل والی لعنت ہے اس سے چھٹکارا پایئے۔

جمالیاتی شعور سے کام لے کر کچھ ایسی غیر معمولی راہ اختیار کیجئے، جس کا نتیجہ یہ نہ ہو کہ عمر گزارنے کے بعد آپ کیریئر پر فخر کریں۔ بلکہ صورتحال یہ ہو کیریئرآپ پر فخر کرے۔ جب انسان اپنے شعورپر حاکم ہوجائے، اس کا کہا حرف آخر ہو تو پھر وہ شعور پر فخر نہیں کرتا بلکہ شعور اس پر فخر کرتا ہے۔ اور یہ مقام ھاصل کرنا جمالیاتی شعور کے بغیر ناممکن ہے ! (ختم شد)

Related Posts