ہر معاشرے میں کچھ ایسے سوالات ہوتے ہیں جو بکثرت سننے کو ملتے ہیں۔ ان سوالات کی نوعیت سے طے پاتا ہے کہ یہ معاشرہ شعوری و نفسیاتی لحاظ سے کس سطح پر کھڑا ہے۔ مثلا ہم کسی پچھلی تحریر میں عرض کرچکے کہ مغرب کے نوجوان کو اس سوال کا سامنا ہے کہ میں اس دنیا میں کیوں ہوں ؟ یہ سوال وہ اس لئے پوچھ رہا ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی موجودگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے۔
اگر آپ مسلم دنیا کا جائزہ لیں تو یہاں جو سوالات بکثرت سننے کو ملتے ہیں۔ وہ یہ ہیں
٭ خراسان کا لشکر کب اٹھے گا ؟
٭ غزوہ ہند میں کتنی مدت باقی ہے ؟
٭ امام مہدی کا ظہور کب ہوگا ؟
٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول میں کتنی مدت باقی ہے ؟
٭ قیامت کب واقع ہوگی ؟
سوال یہاں بھی یہی ہے کہ یہ سولات کیوں پوچھے جا رہے ہیں ؟ ان سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے ؟ نہایت معمولی غور سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ خون خرابے اور جنگ و تباہی سے متعلقہ سوالات ہیں۔ ہمارا مذہبی ذہن خون کے ان دریاؤں میں دلچسپی رکھتا ہے جو اس کی جانب سے بہائے جائیں۔ اور اسے لگتا ہے کہ یہ کام مذکورہ بالا شخصیات یا واقعات کی مدد سے ہی ممکن ہے۔
یہ نفسیاتی لحاظ سے ایک ایسی قوم کے سوالات ہیں جو سنگدلی میں آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ لوگ معمولی سے روڈ ایکسیڈنٹ سے بھی بچنے کی فکر کرتے ہیں اور یہ جنگ جیسی ہلاکت خیزی کا متمنی ہے۔ یہ ہم محض ہوائی بات نہیں کر رہے۔ بلکہ عسکری تنظیموں کی صورت انہوں نے جو آرٹیفشل قسم کے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی پال رکھے ہیں، انہی میں ان کی بھرپور دلچسپی سے اندازہ لگا لیجئے ۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ مسلم نوجوان ملک و ملت کی ترقی کے حوالے کوئی سوال کیوں نہیں پوچھتا ؟ مثلا وہ یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ کوئی ایسا امام العلم کب ظاہر ہوگا جو ہمیں ایک بار پھر علم و آگہی کی صراط مستقیم پر ڈال دے ؟
سبب اس کا یہ ہے کہ زمانے ہوئے مسلم معاشروں سے جمالیاتی شعور اٹھ چکا۔ بالخصوص مذہبی لوگوں کے ہاں تو اس کا تصور تک باقی نہیں رہا۔ ان کے لئے یہ ایک اجنبی اصطلاح ہے۔ اور یہ جمالیاتی شعور کا ہی کام ہے کہ وہ انسان کو تروتازہ، شگفتہ، مثبت و تخلیقی مزاج کا بنا کر رکھتا ہے۔یہ جمالیاتی شعور ہی ہے جو اسے خیر کا منبع بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمالیاتی شعور ہوتا کیا ہے ؟
جواب یہ ہے کہ ہر موجود شئے میں دو چیزیں ضرور پائی جاتی ہیں۔ پہلی چیز ہے صحیح اور غلط۔ اور دوسری چیز ہے خوبصورتی بدصورت بدصورتی۔ یعنی شئی درست یا غلط بھی ہوگی۔ اور خوبصورت یا بدصورت بھی ہوگی۔ شئے کا محض درست ہونا کافی نہیں۔ اس کا خوبصورت ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کی مثال دیکھئے
آپ ڈاکٹر کے پاس گئے اور ان سے گرمی کی شکایت کی کہ بہت لگتی ہے۔ ڈاکٹر نے ایک نظر آپ کے لباس میں استعمال ہونے والے کپڑے پر ڈالی اور کہا
“آپ نے غلط کپڑا پہن رکھا ہے۔ اس میں تو گرمی لگے گی۔ آپ درست کپڑا پہنئے”
“درست کپڑا کونسا ہوتا ہے ڈاکٹر صاحب ؟”
“کاٹن، آپ گرمیوں میں کاٹن پہنا کیجئے”
اب ذرا غور کیجئے، جب آپ کپڑے کی دکان پر پہنچے تو کیا آپ نے یہ کیا کہ کاؤنٹر پر جاکر کہا
“بھائی صاحب چھ میٹر کاٹن دیدیجئے”
کاؤنٹر والے نے سیلز مین سے کہا
“بھئی چھ میٹر کاٹن کاٹ لاؤ”
وہ چھ میٹر کاٹن شاپر میں ڈال کر لے آیا اور آپ قیمت ادا کرکے گھر لے آئے۔ کیا ایسا ہوتا ہے ؟ شاپر میں کاٹن تو ہے، وہی کاٹن جو بقول ڈاکٹر “درست کپڑا” ہے۔ نہ تو اپ ایسا کرتے ہیں، اور نہ ہی دوکاندار کو ایسا کرنے دی گے۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ آپ تھان پر تھان کھلواتے چلے جاتے ہیں
“نہیں، یہ والا رنگ مزے کا نہیں ہے، وہ والا تھان کھولو”
کم از کم بھی بیس سے پچیس منٹ تک تھان پر تھان کھلواتے چلے جاتے ہیں۔ اور سیلز مین کھولتا چلا جاتا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ صرف درست ہونا کافی نہیں ہے بلکہ خوبصورت ہونا بھی ضروری ہے۔ کاٹن بھی ہو، اور خوبصورت بھی ہو تو تب ہی آپ لیں گے ورنہ دوسری دکان کا رخ کرلیں گے۔
اب یہ نکتہ سمجھ لیجئے کہ شئی کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ علم یا علمی شعور کرتا ہے۔ جبکہ اس کے خوبصورت یا بدصورت ہونے کا فیصلہ جمالیاتی شعور کرتا ہے۔اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جمالیاتی شعور کا نام نشان تک نہیں۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ایک آدمی ہمارے دین کے عالم سے پوچھتا ہے
“مولوی صاحب آپ ہمیشہ سفید لباس کیوں پہتے ہیں ؟”
مولوی صاحب جواب دیتے ہیں
“کیونکہ یہ مسنون ہے”
“اچھا مولوی صاحب اللہ کے رسول ﷺ سفید لباس ہی کیوں زیب تن فرمایا کرتے تھے ؟”
اب اس سوال پر مولوی صاحب کا پارہ ہائی ہونا شروع
“بھئی اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو سفید رنگ پسند تھا”
“کیوں پسند تھا مولوی صاحب ؟”
“یار تمہارا دماغ خراب ہے ؟ پسند تو بس پسند ہوتی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی”
اگر جمالیاتی شعور ہوتا تو مولوی صاحب یہ جواب دیتے ؟ قطعا نہیں، بلکہ ان کا جواب ہوتا
“کیونکہ سفید رنگ بزرگی اور پاکیزگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ انبیاء علیھم السلام سے بڑا بزرگ اور پاکیزہ کون ہوسکتا ہے ؟”
اب یہ بات تو ہر شخص کہتا ہے کہ مجھے فلاں رنگ بہت پسند ہے۔ مگر کیا آپ رنگوں کے معانی جانتے ہیں ؟آپ نے پینٹنگز تو دیکھی ہوں گی۔ بعض تو باقاعدہ تصویری پینٹنگز ہوتی ہیں مگر بعض میں صرف رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ ہر پینٹنگ میں رنگ عبارت کا کام دیتا ہے۔ وہ کچھ بیان کرتا ہے۔ کیا آپ پینٹنگ پڑھ سکتے ہیں ؟آپ بتا سکتے ہیں کہ آرٹسٹ کیا کہنا چاہ رہا ہے ؟اس نے کوئی سانحہ پینٹ کیا ہے یا کوئی بڑا خیال ؟
اب یہاں نکتے کی بات یہ سمجھ لیجئے کہ انسان کی تمام کی تمام تخلیقات کے آئیڈیاز قدرت کی تخلیقات سے ماخوذ ہیں۔ کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس نے انسپریشن کے بغیر تخلیق کرلی ہو۔ اپنی نسل میں ارسطو رکھنے والی اس ہستی نے تو قبر کھودنی بھی کوے سیکھی تھی۔ غار کھودنا اس نے ان جانوروں سے سیکھا جن سے یہ “افضل” ہے۔ حتی کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی سائنسی تخلیقات ہوں یا آرٹ ورک سب کی انسپریشن یہ آج بھی قدرت کی تخلیقات سے حاصل کر رہا ہے۔
ثابت کیا ہوا ؟ اس کا اپنا تخلیق کیا ہوا جمال بھی خالص اس کا نہیں۔ اس کی نسبت کسی اور ہستی سے جڑی ہے۔ وہ ہستی جو خلاق العالمین ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، جب کسی مخلوق پر میری نگاہ پڑتی ہے تو اس مخلوق سے قبل خالق کا خیال میرے دل میں آچکا ہوتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی آنکھ میں ہوتی ہے، منظر میں نہیں۔ وہ یہی تو ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ انہیں مخلوق سے بھی قبل خالق تک پہنچا رہی ہے۔ کیا ہماری اور آپ کی آنکھ یہ کرتی ہے ؟
سیدنا صدیق اکبر کے ارشاد گرامی کو سمجھنے کے لئے بھی جمالیاتی شعور درکار ہے۔ ہم سمجھاتے ہیں۔ اس کائنات میں جتنے بھی وجود ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ سب کے سب ہمارے تصور علم کے مطابق کیا ہیں ؟ یہ “علامات” ہیں۔ خود اللہ سبحانہ و تعالی نے انہیں اپنی “آیات” بتایا ہے۔ آیت علامت کو کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامت کسے کہتے ہیں ؟ علامت اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی جانب رہنمائی کرے۔ ایک بڑی سی عمارت ہے، اس کے گیٹ پر سرخ چاند یا ریڈ کراس کی علامت ہے تو یہ علامت رہنمائی کر رہی ہے کہ یہ بلڈنگ ہسپتال ہے۔ کوئی اور علامت ہوگی تو جس چیز کی بھی علامت ہوگی اس چیز کی طرف رہنمائی کرے گی۔
بعینہ اس کائنات میں موجود ہر شئی اپنے خالق کی جانب رہنمائی کر رہی ہے۔ سو یہ ہو نہیں سکتا کہ مسلمان عالم یا سائنسدان ہو اور تخلیقات اسے خالق کی جانب متوجہ نہ کریں۔ ہم تو پہلے مخلوق کو نظر بھر کر دیکھتے ہیں تو پھر ہمارا ذہن خالق کی جانب جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مخلوق پر نظر پڑتے ہی جو پہلا خیال میرے دل میں آتا ہے وہی خالق کا ہوتا۔ اس مخلوق کی جانب توجہ بعد میں جاتی ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس کا ذہن مخلوق سے خالق کی طرف نہیں جاتا تو ایسا شخص کا جمالیاتی شعور نہایت ناقص ہے۔ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ توجہ نہ جائے۔ ایک آدمی گھر سے باہر گلی میں آیا تو دیکھا کہ ایک بہت ہی شاندار کار گلی میں کھڑی ہے جو پہلے کبھی اس گلی میں نظر نہ آئی تھی۔ اس کار پر نظر پڑتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کس کی ہے ؟کار کیا گلی میں پالتو کتا یا بلی نظر آجائے تو سب پوچھتے ہیں
“یہ کس کا ہے ؟”
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ انسان کی فطری حالت ہے کہ جب وہ کوئی خوبصورت چیز دیکھتا ہے تو اس کا ذہن فورا اس کے مالک کی جانب جاتا ہے۔ اب یہ کائنات تو قدرتی تخلیقات سے بھری پڑی ہے تو ذہن خالق کی جانب جانا چاہئے یا نہیں ؟
یہ ہوا جمالیات کا ایک سرا۔ کہ قدرتی حسن آپ کو اس کے خالق کی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ اور جتنا آپ اس حسن کی گہرائی میں جا رہے ہیں اس کے خالق کا مقام آپ کے دل میں اور وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اس سے اور متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی بھی ایک مثال لیتے جایئے۔ ہماری رشین ادب والی سیریز اگر یاد ہو تو اس پر ایک ادیب نے ہم سے یہ جملہ کہا تھا
“میں نے ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی دونوں کو پڑھا ہے۔ مگر آپ کی سیریز پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں نے ان دونوں سے متعلق بہت سطحی رائے قائم کر رکھی ہے۔ مجھے انہیں دوبارہ پڑھنا ہوگا”
اس عبارت میں کام لفظ “سطحی رائے” ہے۔ جمالیاتی شعور نہ رکھنے والا عالم اپنے عہد کا شیخ الاسلام ہی کیوں نہ ہو، اس کا اللہ سبحانہ و تعالی سے متعلق تصور محض کتابی اور محض سطحی ہوگا۔
اب ہم آپ سے بالکل ہی سادہ سا سوال کرنا چاہتے ہیں۔ جس اللہ نے اپنی کسی ایک تخلیق کو بھی جمالیات سے باہر نہیں چھوڑا، اس نے اپنا دین جمالیات کے بغیر بھیجا ہوگا ؟ (جاری ہے)