ایک طرف فلسطینی مزاحمتی قوت کی جانب سے اسرائیلی فوج کے خلاف مہلک گوریلا حملے جاری ہیں تو دوسری جانب صہیونی فوجی ایک خاموش مگر تباہ کن محاذ پر بھی لڑ رہے ہیں، یعنی صہیونی فوج کو نفسیاتی دباؤ، ذہنی تناؤ اور خودکشیوں کے طوفان کا بھی سامنا ہے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹس کے مطابق 2025 کے صرف پہلے 6 ماہ میں 15 فوجیوں نے دورانِ سروس خودکشی کر لی، جب کہ 2024 میں یہ تعداد 21 تھی۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک خودکشی کرنے والے فوجیوں کی مجموعی تعداد 44 ہو چکی ہے۔
حالیہ دنوں میں مسلسل واقعات رونما ہوئے۔ پیر کی شب ناحال بریگیڈ کا فوجی شمالی اسرائیل میں فوجی اڈے پر مردہ پایا گیا۔ اس سے قبل گولانی بریگیڈ کے ایک سپاہی نے ساتھی کا اسلحہ استعمال کرکے خود کو گولی مار لی، جبکہ مغربی کنارے میں تبواح بستی سے ایک ریزرو فوجی کی گولی لگی لاش برآمد ہوئی۔ ان خودکشیوں کے پیچھے مشترکہ عنصر “جنگی تھکن اور PTSD” ہے۔
قابض فوج تھکن سے چور
اسرائیلی چینل 12 کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ فوج کے اعلیٰ عہدے دار مسلسل دباؤ اور افرادی قلت کے باعث سروس کی مدت ایک سال بڑھانے پر غور کر رہے ہیں۔ فوجی 12 گھنٹے طویل مشنز پر تعینات ہیں، نیند کی کمی، اعصابی تھکن اور چڑچڑاہٹ ان کا معمول بن چکی ہے۔ اسرائیلی انسٹیٹیوٹ برائے نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS) فوج ایک شدید اخلاقی، نفسیاتی اور تنظیمی بحران سے دوچار ہے۔
وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والے ادارے اور آرمڈ فورسز ہیلتھ سینٹر کے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ تقریباً 20,000 فوجی PTSD (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ ماضی کے خونریز مناظر کی بازگشت، بے خوابی، غصے، اور خود کو نقصان پہنچانے کی سوچ سے نبردآزما ہیں۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر دانا برنشتین کے مطابق، “اسرائیلی فوج PTSD کے سب سے بڑے کلائنٹس میں بدل چکی ہے۔”
فوجی بھرتیوں میں عدم دلچسپی
اس بحران کو مزید گہرا کرنے والا عنصر معاشرتی عدم مساوات ہے۔ INSS کے ایک سروے کے مطابق 71 فیصد اسرائیلی شہری حریدی (الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں) کو لازمی فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دینے کو امتیازی سمجھتے ہیں، جبکہ 42 فیصد والدین اب اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہ طبقاتی امتیاز فوجی مورال کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
غزہ کی زمینی صورت حال نے فوجی نفسیات پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اسپیشل فورسز جیسے نخبوہ اور کمانڈوز یونٹ کو عام پیدل مشنز پر لگا دیا گیا ہے۔ ان کا تربیتی ماڈیول ایسی جنگ کے لیے موزوں نہیں، اس لیے نہ صرف ان کی افادیت کم ہوئی بلکہ جانی خطرات میں بھی اضافہ ہوا۔
فوجی خودکشیاں سنگین مسئلہ
فوجی خودکشیاں اب اسرائیلی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ بن چکی ہیں۔ 5 جولائی کو 26 سالہ اسرائیلی فوجی دانیئل ادری نے خود کو کار سمیت جلا دیا۔ وہ نوفا میوزک فیسٹیول کے واقعے میں اپنے دو قریبی دوستوں کی ہلاکت کے بعد ذہنی صدمے کا شکار تھا۔ غزہ اور لبنان میں پیش آنے والے جنگی مناظر نے اس کی نفسیات کو چکناچور کر دیا۔
فوج نے نہ صرف اس کی خودکشی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ فوجی اعزازات سے بھی محروم رکھا، جس پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک44 اسرائیلی فوجی خودکشی کر چکے ہیں۔ 890 سے زائد ہلاک اور 10,000 سے زائد زخمی ہیں۔ جبکہ 20,000 PTSD سے متاثر۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فوجیوں کو “بہتر نفسیاتی دوائیں” فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو خود طنز کا نشانہ بن گیا۔ الجزیرہ کے پروگرام “الشبکہ” میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ “انہیں نفسیاتی دواؤں کی نہیں، جنگ بندی جیسے علاج کی ضرورت ہے۔”
قابض فوج کو اندر سے خطرے کا سامنا
اسرائیلی فوج آج محض میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ اپنے اندر سے شکست کھا رہی ہے۔ جب سپاہی دشمن کے مقابلے سے زیادہ اپنے ذہن سے جنگ لڑنے لگیں، جب فوجی اعزاز کی جگہ خاموش جنازے اُٹھنے لگیں، تو یہ فوجی ادارے کی نہیں، پوری ریاست کی شکست ہوتی ہے۔
یہ رپورٹ محض واقعات کا مجموعہ نہیں، یہ ایک اخلاقی اور وجودی زوال کی دستاویز ہے، جو بتاتی ہے کہ اسرائیل ایک اندرونی شکست کے دہانے پر کھڑا ہے، ایک ایسی شکست جو شاید میرکاوا ٹینکوں، ایف-16، ایف-35 طیاروں اور آئرن ڈوم سے نہیں روکی جا سکے گی۔