پاکستان کا وہ کونسا قبیلہ ہے جو موت پر “جشن” مناتا ہے!

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی کیلاش جو کافرستان کے نام سے بھی شہرت عام رکھتی ہے، میں آباد غیر مسلم کیلاش قبیلہ اپنی منفرد روایات اور رسوم و رواج کیلئے دنیا بھر میں معروف ہے، موت پر عمومی طور پر تقریباً تمام ہی انسانی برادریوں اور مذاہب میں دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر کیلاش کلچر کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے ہاں کسی کی موت پر بھی جشن کا سماں ہوتا ہے، کئی کئی دن تک دیگیں چڑھتی ہیں اور مختلف تقریبات میں کمیونٹی کے مرد و زن الگ الگ ٹولیوں میں رقص کرتے نظر آتے ہیں۔

سوگ میں “جشن”

کیلاش قبیلے کی اس منفرد روایت کا آج کل ایک بار پھر چرچا ہے، گزشتہ دنوں اس قبیلے کی سب سے طویل العمر خاتون سینگرائے بی بی انتقال کرگئیں، جس کا “جشن مرگ” علاقے میں جاری ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق سینگرائے بی بی کی آخری رسومات کافرستان کی وادی میںادا میں ادا کی جا رہی ہیں۔ اس قبیلے میں کچھ عرصہ قبل تک مُردوں کو دفنانے کے بجائے بڑے بڑے صندوق نما تابوتوں میں رکھنے کا رواج تھا، تاہم اب آبادی بڑھنے اور کچھ دیگر مسائل کی بنا پر یہ رسم بدل دی گئی ہے۔
کیلاش روایت کے مطابق مرنے والے کا سماجی رتبہ اور مقام جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کی میت پر کمیونٹی تقریبات اتنا ہی بڑے پیمانے پر منعقد کی جاتی ہیں۔
طویل العمر سینگرائے بی بی کی موت کی تقریبات بھی کئی دن سے جاری ہیں، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سینگرائے بی بی کیلاش سماج میں اہم مقام کی حامل تھیں۔
تیس من دیسی گھی سے مہمانوں کی تواضع
بتایا گیا ہے کہ سینگرائے بی بی کی موت کی تقریبات میں آنے والوں کے لیے اب تک 30 بکرے ذبح کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی “مہمانوں” کی 30 من دیسی گھی، 150 کلوگرام پنیر اور 25 من آٹے سے تواضع کی گئی ہے۔ آٹے سے ایک مخصوص قسم کا لیس دار پکوان تیار کیا جاتا ہے، جو ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ شرکاء کو پیش کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اسکول میں طالب علموں نے طالبہ کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا

دلچسپ اور منفرد ثقافت والا قبیلہ
چترال میں آباد منفرد رسوم و روایات کی حامل اس غیر مسلم برادری کو ہزاروں سال قدیم تہذیب سے جوڑا جاتا ہے، یہ اپنے مخصوص سماجی نظام اور منفرد ثقافت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور پوری دنیا سے ہر سال سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔

طویل العمر سنگرائے بی بی “کافروں” کی نانی:

سنگیرائے کیلاش کی وادی رمبور سے تعلق رکھنے والی مشہور خاتون تھیں جنہیں کیلاش کمیونٹی کے لوگ ان کے عمدہ اخلاق اور فلاحی کاموں کی وجہ سے نانی کہا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی موت پر تقریبات بھی کیلاش سماج کے ایک بلند رتبہ شخص کی موت کی حیثیت سے منائی جا رہی ہیں۔
کافروں کی نانی کہلانے والی سنگرائے بی بی کیلاش مذہب و ثقافت پر بڑی معلومات رکھتی تھیں۔
 طویل العمر سینگرائے بی بی کی کیلاش کلچر کے فروغ کے لیے بھی اہم خدمات بتائی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مذہب اور ثقافت سے متعلق کئی معاملات میں کیلاش افراد ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ سنگیرائے کے سات بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی پرچم بی بی کی عمر 90 برس سے زائد ہے جبکہ بیٹا ریٹائرڈ حوالدار ہے۔
 سنگیرائے بی بی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ان کی دادی ریڈ کیلاشا (سرخ کافر) مذہب سے تعلق رکھتی تھی جو افغانستان کے علاقے نورستان میں آباد تھے۔
سرخ کافر اور سیاہ پوش کافر:
ماضی میں کیلاش کی دو قسمیں تھیں، ایک سرخ اور دوسرے سیاہ پوش کافر کہلاتے تھے۔ روایت ہے کہ سرخ کافر افغان بادشاہ امان اللہ خان کے دور میں سب کے سب مسلمان ہوئے ، افغان صوبہ نورستان میں انہی کی اکثریت ہے، جبکہ سیاہ پوش کافروں کی بطور مجموعی اپنا کلچر اور مذہب برقرار رکھا۔ چترال کی وادی کافرستان میں یہی سیاہ پوش کافر آباد ہیں۔
 کالاش مذہب کے مطابق سنگرائے بی بی کا سوگ اگلے تہوار چوموس تک جاری رہے گا۔

Related Posts