ایک ایسے وقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام دینے کی حمایت کرنا جب پاکستان امریکی دھوکا دہی کے جغرافیائی سیاسی اثرات جھیل رہا ہے اور غزہ امریکی حمایت یافتہ نسل کشی کا درد سہہ رہا ہے، صرف سفارتی بے حسی نہیں بلکہ ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ آج جب دنیا میں اتحاد بدل رہے ہیں، پاکستان کے لیے وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی تزویراتی حکمتِ عملی کو ازسرِنو ترتیب دے۔
حالیہ دنوں ایک عجیب سفارتی موڑ اُس وقت آیا جب حکومتِ پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی حمایت کی گئی۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں حیرت اور تنقید کا باعث بنا۔ جس ملک نے امریکی دھوکوں کی سب سے زیادہ قیمت چکائی ہو اور خاص طور پر ٹرمپ کے دور میں، اس ملک کی طرف سے اس طرح کی تائید محض ایک سفارتی چال نہیں بلکہ درحقیقت یہ پوری قوم کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ سے متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت پاکستان نے ہمیشہ مغربی طاقتوں اور علاقائی اتحادیوں دونوں سے بنا کر رکھا ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرد جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاکستان ہمیشہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی رہا، لیکن بدلے میں اسے تنہائی ہی ملی۔ 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اچانک دفاعی امداد کی بندش اور پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام امریکی بے وفائی کی ایک نمایاں مثال ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی سراسر “سودے بازی” پر مبنی رہی ہے۔ انہوں نے بھارت کو اپنی “انڈو پیسیفک” حکمتِ عملی کے تحت گلے لگایا اور پاکستان کو الگ تھلگ کیا۔ ٹرمپ کی “امریکا فرسٹ” سوچ نے شراکت داری کے امکانات کو محدود کر دیا۔ ایسے شخص کو “امن کا سفیر” قرار دینا جس نے ایران سے فلسطین تک ہر محاذ پر کشیدگی بڑھائی، بین الاقوامی سفارت کاری کا کھلا مذاق ہے۔
کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ امریکہ نے فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بارہا اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور کا استعمال کیا؟ کیا ہمیں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی دھمکیاں یاد نہیں؟ نیز یہ تازہ الزام بھی کہ پاکستان ایسے بیلسٹک میزائل بنا رہا ہے جو امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ سب یکسر نظرانداز کر دیں گے؟
عالمی سطح پر منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ چین ایک اقتصادی و تکنیکی قوت بن کر ابھرا ہے، جبکہ روس محدود اقتصادی وسائل کے باوجود یوکرین میں نیٹو کو للکار کر عسکری اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اس طرح چین اور روس ایک نیا عالمی توازن قائم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو مغربی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے۔
اس کے برعکس امریکا کی قیادت میں قائم عالمی نظام کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے نیٹو کی صفوں میں دراڑیں پیدا کیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر امریکی حمایت نے مسلم دنیا سمیت عالمی سطح پر غم و غصہ بھڑکا دیا۔ ٹرمپ کی اسلام دشمن اور صہیونیت نواز پالیسیوں نے مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف منفی جذبات میں بھی اضافہ کیا۔ اس نئی ابھرتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اتحاد محض جذباتی وابستگی پر نہیں، بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر استوار کرے۔
سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان ایسے ملک پر انحصار ختم کرے جس نے ہمیشہ وقتی مفادات کے لیے پاکستان کے طویل المدتی مفادات کو قربان کیا۔ بین الاقوامی تعلقات میں اعتماد صرف امداد یا دباؤ سے نہیں بلکہ باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
پاکستان کے لیے فوری طور پر ضروری ہے کہ وہ چین، روس، ترکی، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے روابط مزید مضبوط کرے۔ سی پیک ایک عمدہ آغاز ہے، لیکن یہ صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علاقائی سفارت کاری بھی اس میں شامل ہونی چاہیے۔
پاکستان کو دفاع اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری حاصل کرنی چاہیے۔ مغربی ہتھیاروں اور امداد پر انحصار نے ہمیں ہمیشہ کمزور کیا۔ مقامی دفاعی پیداوار اور سائبر صلاحیتوں کو ترقی دینا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ سارک کو فعال بنانے یا ہم خیال ہمسایہ ممالک کے ساتھ نئے علاقائی پلیٹ فارمز کی تشکیل کے ذریعے جنوبی اور وسطی ایشیا میں ایک مضبوط بلاک بنایا جا سکتا ہے، جو مغربی دباؤ کا مؤثر توڑ ہو۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اب محض علامتی حمایت یا خوشامد سے نکل کر ایک اصولی اور مفاد پر مبنی انداز اختیار کرنا ہوگا۔ چاہے مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر، پاکستان کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر ڈٹ کر مؤقف اپنانا چاہیے، چاہے مغرب ناراض ہی کیوں نہ ہو۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور دیگر فورمز پر مؤثر آواز اٹھائی ہے اور یہ تسلسل جاری رہنا چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو امن کے انعام کے قابل قرار دینا نہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کی توہین ہے، بلکہ عالمی انصاف کے حوالے سے ہماری اپنی باتوں کی نفی بھی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے ٹوئٹر پر پاکستان کو دھمکیاں دیں، دفاعی امداد روکی اور بھارت کو ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اگر یہ شخص “امن کا علمبردار” ہے تو ہم یقیناً اپنے وقار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
اس وقت جب دنیا میں نئے سیاسی اتحاد ابھر رہے ہیں، پاکستان کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اعتماد کاغذ پر نہیں، تجربے اور دانائی سے حاصل ہوتا ہے۔ سبق واضح ہے: امریکہ خاص طور پر ٹرمپ یا اس جیسے نظریات رکھنے والے رہنماؤں پر انحصار اب خطرناک حد تک مہنگا سودا بن چکا ہے۔ ایران پر دوبارہ حملے کی کوشش اور 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بچانے کی کوششوں نے ایک بار پھر ٹرمپ کی جنگی اور انتشاری فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
پاکستان کو اب عالمی سطح پر اپنی توقیر قائم رکھنے کے لیے مشتبہ عالمی شخصیات کی خوشنودی کے بجائے خوداعتمادی، خطے میں استحکام اور خود انحصاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ اندھی وفاداری کا دور ختم ہو چکا، اب وقت ہے حقیقت پسندانہ سفارت کاری کا۔
(نوٹ: مصنف ڈیوکام سینٹر برائے جیوپولیٹیکل اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ترقیاتی امور کے ماہر اور خطے میں تعاون و ماحولیاتی سفارت کاری پر توجہ رکھنے والے پالیسی تجزیہ کار ہیں۔
ان سے رابطے کا ای میل: devcom.Pakistan@gmail.com)