بوسنیا میں یہودی اور مسلمان شخصیات نے ایک مشترکہ ‘انیشیٹو’ شروع کر دیا ہے۔ یہ ‘انیشیٹو’ ان کی امن کوششوں کے حوالے سے بوسنیا کے شہر سریبرینیکا میں اس وقت سامنے آیا ہے جہاں انہوں نے مل کر یہودیوں کے ہولوکاسٹ کی یاد منائی اور غزہ میں امن کا مطلبہ کیا۔
اس مشترکہ ‘انیشیٹو’ کو یہودی مسلم امن ‘انیشیٹو ‘ کا نام دیا گیا ہے، جو نسل کشی کا شکار ہونے والے یہودیوں اور مسلمانوں کی یاد میں سریبرینیکا کے نسل کشی کے یادگاری مرکز میں انجام پایا۔ ورلڈ فیڈریشن آف بیلسن ایسوسی ایشن اور امریکن لائرز کے صدر میناچیم روزن سیفت اور مسلمانوں کے مذہبی رہنما حسین کاوا زویک نے تقریب میں بطور خاص شرکت کی۔
اس نسل کشی کی یاد میں قائم مرکز کی ایک غیر معمولی علامتی حیثیت ہے۔ جیسا کہ بوسنیا کے ایک قصبے میں سربیا کی فوج نے 8000 مسلمانوں اور بطور خاص 1995 میں مسلم نوجوانوں کو نسل کشی کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد ازاں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اس واقعے کو نسل کشی قرار دیا تھا۔
ورلڈ جیوش کانگریس کے روزن سیفٹ نے اس غیر معمولی تقریب میں کہا کہ ہم یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہمارے غم اور آنسو دعائیں بن جائیں، یہ یاد آنے والوں کے لیے دعا ہے، لیکن ہماری یہ دعائیں امید کے لیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہولوکاسٹ اور سریبرینیکا میں مسلمانوں کی نسل کشی کے متاثرین کی یاد میں یہ تقریب ہمارے مشترکہ عزم کرنے کا وقت اور مقام ہے۔ ہم مزید ہولناکیوں کو دہرانے سے روکنے کے لیے آج یہاں پرانی ہولناکیوں کو یاد کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے بوسنیا میں مفتی اعظم نے کہاکہ ہم چھ ملین معصوم یہودیوں کو یاد کرتے ہیں جنہیں اس وقت کے فاشسٹ نازیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ مگر آج پھر ہم اسی جگہ پر جمع ہیں جہاں انسانیت اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں دوبارہ ناکام ہو گئی تھی اور آٹھ ہزار مسلمانوں کو سرب فوج نے شہید کیا تھا۔
حسین کاوازوچ نے کہا کہ ہم دونوں قومیں مصائب بھگت رہی ہیں۔ نازیوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا تھا اور بوسنیا میں مسلمانوں کی تقریباً پوری آبادی کو ختم کر دیا گیا تھا۔
مفتی اعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور یہودی ایک جسم ہیں۔ ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ یہ تعلقات مشکل وقت اور خوشحالی دونوں وقتوں میں مضبوط رہے ہیں۔
اس موقع پر سریبرینیکا کی ماوں کی ایسوسی ایشن کی صدر منیرہ سباسک کی موجودگی میں دونوں رہنماؤں نے مفاہمتی راستے بنانے کی تحریر پر دستخط کیے اور اس کی بنیاد پر تعلقات کی عمارت کھڑی کرنے پر زور دیا۔
بوسنیا میں مسلمانوں اور یہودیوں کی اس مشترکہ کوشش کی پذیرائی برسلز میں سامنے آئی ہے، جہاں کونسل آف یورپین کمشنر برائے انسانی حقوق ڈنجا میجاٹووک نے اسے ایسے وقت میں امید کی کرن قرار دیا جب تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عام طور پر یہ ناقابل تسخیر نظر آتی ہے۔