اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ دنوں یوکرین کے دارالحکومت کیئو سے آپریٹ ہونے والے ایک ٹیلی گرام چینل نے یہ افواہ اڑائی تھی کہ اسرائیل سے یہودی مہاجرین داغستان میں لینڈ کرنے والے ہیں۔ اس پر دو سو کے لگ بھگ لوگ ایئرپورٹ پہنچ گئے اور ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ مسئلہ چند گھنٹوں میں حل کردیا گیا تھا اور لوگوں کو سمجھا دیا گیا کہ آنکھیں بند کرکے ٹرک کی بتیوں کی جانب دوڑ مت پڑا کرو۔ پہلے یہ دیکھ لیا کرو کہ ٹرک ہے کس کا؟ جب ٹرک یوکرین سے چلایا گیا ہے تو تم اس کے پیچھے کیوں دوڑتے ہو؟
اسی حوالے سے چار چھ روز قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا، جس میں داغستان کے صدر اور سیکیورٹی حکام بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ولادیمیر پیوٹن نے ایک بات کہی ہے جو ہمارے آج کے کالم کا موضوع ہے۔ پیوٹن نے بظاہر داغستانیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا:
“اگر کوئی واقعی اپنا کردار ادا کرنے کا شوق اور جذبہ رکھتا ہے تو پھر اسے مردوں کی طرح بندوق اٹھا کر یوکرین کی اس جنگ میں شریک ہونا چاہئے جو روس، دنیا اور فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔”
یہ بہت غیر معمولی بات ہے۔ پیوٹن درحقیقت یہ کہہ رہے ہیں کہ یوکرین میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست انہیں عسکری ہی نہیں سیاسی شکست سے بھی دوچار کرے گی اور اس کے نتیجے میں روس مزید عسکری و سیاسی طاقت حاصل کرے گا، جس سے عالمی سیاست میں اس کا رول بڑھ جائے گا۔ اس بات کو اگر برکس کے تناظر میں دیکھا جائے تو مزید واضح ہوجاتا ہے کہ پیوٹن کیا کہہ رہے ہیں۔
جب کوئی عالمی لیڈر کسی پیچیدہ جغرافیائی مسئلے کے حل کی بات کرتا ہے تو دو چیزیں دیکھنی ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کیا وہ مسئلہ حل کرنے کے لئے درکار سیاسی قوت رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو پیوٹن نے دے دیا کہ یوکرین کی جنگ یہ فیصلہ کرے گی اور یوکرین کی زمینی صورتحال بتا رہی ہے کہ یہ فیصلہ اب چار چھ مہینے کی دوری پر ہے۔
اب آجاتا ہے دوسرا سوال۔ کیا یہ لیڈر پیچیدہ مسائل حل کرنے کی کوئی تاریخ رکھتا ہے؟ اگر ہاں تو جو مسئلہ اس نے حل کیا اس میں اس کی اپروچ کیا تھی؟ کیا اس نے گن پوائنٹ پر کسی سے منوایا یا کوئی پائیدار سیاسی حل تلاش کیا؟ اس حوالے سے ولادیمیر پیوٹن کے کریڈٹ پر ایک بڑا کارنامہ موجود ہے۔ جب چیچنیا کی دوسری مسلح بغاوت ہوئی تو پیوٹن نے اسے پوری فوجی طاقت کے ساتھ کچل دیا۔ اس نے دارالحکومت گروزنی کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ جب بغاوت مکمل طور پر کچلی جا چکی تو پھر اس نے روس کی سات مسلم ریاستوں کی لیڈرشپ کو بلایا اور ان سے کہا: بغاوت ہم نے کچل دی۔ ریاست کی عملداری قائم ہوگئی، مگر کیا مسئلہ بھی حل ہوگیا؟ پیوٹن نے خود جواب دیا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔ کچھ عرصے بعد بغاوت کی تیسری کوشش عین ممکن ہے، لھذا بغاوت تو کچلی جا چکی مگر مسئلے کا حل ابھی باقی ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ مجھے مسئلے کا پائیدار اور مستقل حل چاہئے اور اس کا مستقل حل یہ ہے کہ ہم ساتوں مسلم ریاستوں کو داخلی خود مختاری دے دیں۔ بغاوت اس لئے سر اٹھاتی ہے کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں وہ اپنی مرضی کے قوانین اور اپنی مرضی کا کلچر چاہتے ہیں، تاکہ مسلم اجتماعی تصور کے مطابق جی سکیں۔ سو داخلی خود مختاری کے تحت ماسکو کے پاس صرف دفاع، خزانہ اور خارجہ امور کا اختیار رہ جائیں گے۔ باقی تمام اختیارات ان ریاستوں کو تفویض کردیے جائیں گے۔ آپ کی پارلیمنٹ جیسے چاہے قوانین بنائے اور آپ جیسی چاہیں اجتماعیت اختیار کریں۔ ماسکو اس میں کوئی دخل نہیں دے گا۔
روسی ریاستوں کی خود مختاری کا اصولی فیصلہ اور اعلان انقلاب روس کے ابتدائی سالوں میں ہوچکا تھا۔ مجموعی طور پر بیس ریاستوں کو خود مختاری دی گئی تھی، جن میں چیچنیا آخری ریاست تھی، جسے 1934 میں خود مختاری ملی، مگر یہ خود مختاری بس اعلان کی حد تک تھی۔ پورے سوویت یونین پر ماسکو کا ہی کنٹرول تھا اور حکم وہیں کا چلتا تھا۔ ولادیمیر پیوٹن نے یہ کیا کہ اس خود مختاری کو اس کی روح کے مطابق حقیقی بنا دیا۔ یوں ساتوں مسلم ریاستوں کو ہی نہیں بلکہ ان تمام 20 ریاستوں کو داخلی خود مختاری دے دی گئی جن کی خود مختاری کا فیصلہ سو سال قبل ہوا تھا۔ اس تاریخی اقدام کے بعد پیوٹن نے دارالحکومت گروزنی کی تعمیر شروع کی۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو آج کا گروزنی ایک قابل رشک خوبصورتی والا دارالحکومت ہے اور مسلم کلچر کے مطابق اس کا مرکزوہ خوبصورت جامع مسجد ہے جو پیوٹن نے تعمیر کروائی ہے اور جو گروزنی کے ماتھے کا جھومر ہے۔
یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ روس میں مساجد یا عبادت خانے شہری اپنی مرضی سے جہاں چاہیں نہیں بنا سکتے بلکہ یہ حکومت کا کام ہے، چنانچہ پیوٹن نے اپنے دور میں روس میں جو مساجد تعمیر کروائی ہیں ان کی تعداد چھیاسی ہزار ہے۔ خود پیوٹن کہتے ہیں کہ جب ایک موقع پر انہوں نے یہ انکشاف عرب حکمرانوں پر کیا تو وہ ہکا بکا رہ گئے اور بہت دیر تک بے یقینی کی سی کیفیت میں رہے۔
پیوٹن کی تعمیر کردہ مساجد کی تعداد اس لئے اتنی زیادہ ہے کہ سوویت دور میں تو مذہب پر ہی پابندی تھی اور سوویت دور کے بعد پہلے مستحکم حکمران پیوٹن ہی آئے۔ سو انہیں گویا مساجد کی تعمیر زیرو سے شروع کرکے ایک کروڑ 14 لاکھ مسلمانوں کے لئے مساجد پوری کرنی پڑیں۔
روس کی خود مختار ریاستوں کی اپنی الگ فوج ہے، مگر یہ فوج مرکزی فوج سے الائن بھی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس فوج کو انہی خطوط پر کھڑا کیا گیا جن خطوط پر روسی فوج ہے، بلکہ اسے بعض رعایتیں بھی دی گئیں، مثلا چیچن فوج کو داڑھی اور مسنون بالوں کی اجازت۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر چیچن ملٹری سرچ کریں تو ان کی صورتیں دیکھ کر آپ کو لگے گا جیسے رائیونڈ کی فوج ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں چیچنیا اور ماسکو کا تعلق آج کس سطح کا ہے؟ یوکرین کی فرنٹ لائن پر سب سے زیادہ داد چیچن فوج پا رہی ہے۔ وہی نوجوان جو چند سال قبل ماسکو سے جنگ لڑ رہے تھے، آج اسی ماسکو کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں اور پیوٹن کا ان پر اعتماد دیکھئے کہ جب کچھ عرصہ قبل پریگوژن نے مسلح بغاوت کرتے ہوئے رستاف شہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تو اس شہر کو محاصرے میں لینے اور جوابی کارروائی کے لئے تیار رہنے کی ذمہ داری پیوٹن نے چیچن فوج کو ہی سونپی اور چیچن فوج نے چند گھنٹوں میں ہی رستاف کو محاصرے میں لے لیا تھا۔
اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ کہ کچھ عرصہ قبل جو خود پیوٹن کے باغی تھے وہ اب پیوٹن کے باغیوں سے نمٹنے کے لئے جان داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ جس چیچنیا نے ماسکو کے خلاف ایک خونریز جنگ لڑی تھی اور پیوٹن کے ہاتھوں ہزاروں افراد کا جانی نقصان اٹھایا تھا وہی اب دس سال بعد اسی پیوٹن پر فدا ہونے کو تیار ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پیوٹن نے انہیں کچلنے کے بعد زمین پر تڑپنے کے لئے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ اٹھا کر سینے سے لگایا اور کہا آؤ اب مسئلے کا پائیدار حل دیتے ہیں اور وہ حل دیا، جس نے ان کی ساری آرزوئیں پوری کردیں۔ بھلا مفتوح کی بھی کوئی آرزو پوری کرتا ہے؟ یہ ہم نے صرف روسی کلچر میں دیکھا ہے اور یہ پیوٹن کی دور اندیشی و معاملہ فہمی تھی کہ اس نے انہیں فتح کرنے کو مسئلے کا حل نہیں سمجھا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر داخلی خود مختاری دینی تھی تو پھر مارا کیوں؟ ہماری نظر میں مارا اس لئے تاکہ انہیں ہمیشہ کے لئے یہ سبق سکھا دیں کہ بندوق مسئلے کا حل نہیں۔ تم بندوق کے زور پر کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ ریاست سے لڑوگے تو منہ کی کھاؤگے۔ مسئلے بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ سو کہا آؤ مسئلہ حل کریں اور کردیا حل۔ بغاوت تو صرف دو ریاستوں میں ہوئی تھی، پیوٹن نے ان مسلمان ریاستوں کو بھی ساتھ شامل کرلیا جہاں بغاوت نہ تھی مگر تھی وہ مسلم اکثریت والی ریاستیں۔
اپنے مسلمانوں کے حوالے سے ماسکو کتنا سنجیدہ ہے اس کا اندازہ گزشتہ برس اس وقت ہوا جب پوپ نے بیان دیا کہ یوکرین میں بے رحمی روسی فوج نہیں بلکہ اس کے مسلمان سپاہی دکھا رہے ہیں، لھذا روس کو الزام نہیں دینا چاہئے۔ اس پر روسی وزیر خارجہ نے ایسا سخت ردعمل دیا کہ پوپ کو ماسکو سے باقاعدہ تحریری معافی مانگنی پڑی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا:
“روس میں کوئی تفریق نہیں۔ ہم سب ایک ہی روسی ہیں۔ ہم مسلم کلچر کو روسی کلچر کا ہی حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا رنگ ہمارا اپنا رنگ ہے۔”
سو جب اس سوچ کا حامل روسی صدر یہ کہے کہ یوکرین کی جنگ فلسطین کے مسئلے کا بھی مستقبل طے کرے گی تو یہ اس لحاظ سے بیحد امید افزا بات ہے کہ پیوٹن واقعی مسائل کا حل جانتا ہے اور وہ ایسے حل سے بھی دریغ نہیں کرتا جس میں اسے سب کچھ محکوم کو دینا پڑ رہا ہو۔ وہ کسی بھی متکبر فاتح کی طرح چیچنیا کی بغاوت کچلنے کے بعد اکڑ سکتا تھا لیکن اس نے اکڑنے کے بجائے اپنے مفتوح کو وہ تک دیا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ سو اس پس منظر میں ولادیمیر پیوٹن نے فلسطینیوں کے لئے امید کی ایک بڑی کرن پیدا کردی ہے۔ خدا کرے یہ کرن آفتاب بنے۔