نا اہل، چور، کرپٹ اور غدار پاکستان کی سیاست کا شروع سے ہی لازمہ چلے آ رہے ہیں۔ اس کھیل کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود وطن عزیز پاکستان کا وجود ہے۔
قیام پاکستان کی ابتدا میں بالخصوص بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی آنکھ بند ہوتے ہی بد قسمتی سے اہل سیاست کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا ایسا رن پڑا کہ الامان و الحفیظ۔ قوم کے بڑے بڑے جغادری رہنما اقتدار کیلئے ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں میں ایسے مگن ہوئے کہ ملک آٹھ سال تک بے آئین رہ گیا۔ اس عرصے میں سیاستدانوں نے باہمی جھگڑوں سے مقتدرہ اور با اثر اشرافیہ کو موقع فراہم کیا کہ وہ بھی سیاست کے کھیل میں دخیل بنیں۔
چنانچہ ملک غلام محمد جیسے گھاگ بیورو کریٹ طاقت کے اس کھیل میں اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے موقع ملتے ہی بعض سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر نا پسندیدہ سیاستدانوں کو غدار اور نا اہل جیسے الزامات سے متہم کرکے ایسے نکال باہر کیا جیسے اونٹ کو خیمے میں سر داخل کرنے کا موقع ملنے کے بعد وہ خیمے کے دیگر افراد کے ساتھ اپنی طاقت کے زور پر کرتا ہے۔
ملک غلام محمد سیاست میں بیوروکریسی کے طاقتور کردار کی کلاسک مثال تھے، سیاستدانوں نے اپنے رویے کی اصلاح نہیں کی اور باہمی مخاصمت اور اختلاف در اختلاف کا ناگوار اور غیر دانش مندانہ سلسلہ جاری رکھا تو ملک غلام محمد کے بعد جنرل ایوب خان کی صورت میں فوج کو بھی سیاسی کھیل میں ناک گھسیڑنے کا موقع مل گیا۔
اور پھر جب سب سے طاقتور ادارے نے سیاست اور اقتدار کا ایک بار راستہ دیکھ لیا تو باقی سارے کردار ثانوی رہ گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایوب خان نے نا پسندیدہ سیاستدانوں کو ایبڈو جیسے قوانین کے ذریعے کھیل سے باہر کر دیا اور سیاستدانوں کی نئی نرسری لگائی۔ وقت نے پلٹا کھایا، ایوب خان کی نرسری میں ہی اگے ہوئے ایک سیاستدان نے ان کے اقتدار کیلئے مسائل کھڑے کر دیے۔ یہ ذو الفقار علی بھٹو تھے، جو بعد میں قائد عوام کہلائے اور ملک کے ایک طاقتور سول حکمران کے روپ میں سامنے آئے۔
مگر کب تک؟ اقتدار کی دھوپ چھاؤں کب سدا رہتی ہے، بھٹو صاحب نے مخالف سیاستدانوں کی مشکیں کسنا شروع کردیں، اپوزیشن کا وجود ہی ان کیلئے نا قابل برداشت بن گیا تو ایک دن انہیں انہی نا پسندیدہ سیاستدانوں کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ اس بار تصادم اس شدت کا تھا کہ کھیل سیاستدانوں کے ہاتھ سے ہی نکل گیا۔
اب نوے کی دہائی کی طرف آئیے، دو بڑی جماعتوں کو قدرت نے موقع دیا کہ جمہوری اصولوں کی روشنی میں ایک دوسرے کا مینڈیٹ برداشت کرکے قوم کی خدمت کریں، مگر انہوں نے اس کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی کو ہی ترجیح بنالی اور ایک دوسرے پر کرپشن، ملک لوٹنے اور غداری کے مقدمات بنائے، آخر کار ایک بار پھر فوج اقتدار میں آگئی اور سیاستدان جیلوں میں ٹھونس دیے گئے۔
جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد قدرت نے پھر موقع دیا کہ سیاستدان اپنی روش کی اصلاح کریں اور مثبت سوچ کے ساتھ ملک و قوم کے مسائل حل کریں، مگر ہوا یہ کہ سیاستدانوں کی پرانی روایت پھر عود کر آئی اور اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو نا اہل کرنے کیلئے کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے اور منتخب وزیر اعظم کو “اداروں” کی ملی بھگت سے نا اہل کروا کر دم لیا۔
ایک بار پھر حالات نے انگڑائی لی، میاں نواز شریف ایک طاقتور وزیر اعظم کے طور پر ابھی اپنا مقام مستحکم کر ہی رہے تھے کہ عمران خان پاناما کا ہنگامہ لیکر عدالت پہنچ گئے اور پھر ان کی “ملی جلی” کوششوں سے جولائی 2017 میں نواز شریف عدالت سے نا اہل قرار پائے۔
اگلے سال الیکشن میں عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے، تو انہوں نے غیر واضح ماحول میں شکست پر مشتعل اپنے مخالفین کے ساتھ سینگیں پھنسالیں اور چور ڈاکو کہہ کر انہیں دیوار میں چننے کا آغاز کر دیا۔ نتیجہ رد عمل کے سائنسی اصول کی صورت میں سامنے آیا اور بالآخر رواں سال عمران خان وزارت عظمیٰ کے چوتھے سال ایک مشکوک فضا میں اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔
نئی حکومت کے کارپردازوں نے آتے ہی وہی روش اختیار کی جو عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی اپنائی تھی، چنانچہ عمران خان کے خلاف کیسز قائم ہوئے، پہلے سے بنے مقدمات پر کارروائی تیز کر دی گئی، اس سب کا نتیجہ کل توشہ خان کیس میں عمران خان کی نا اہلی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
عمران خان کو ایسے موقع پر نا اہل قرار دیا گیا ہے جب وہ سیاسی اور عوامی مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ بلا شبہ اس وقت عمران خان ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ حال ہی میں اسی الیکشن کمیشن کے تحت جس نے انہیں نا اہل قرار دیا ہے، ضمنی انتخابات میں وہ آٹھ میں سے چھ نشستیں جیت چکے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں کی اصل اہلیت ان کی کارکردگی اور عوام سے اس کی سند ہے، جس سیاستدان پر عوام اعتماد کریں دنیا کی کوئی بھی عدالت اسے نا اہل کیوں نہ قرار دے، وہ عوام کا انتخاب ہی رہے گا۔ ماضی میں کئی سیاستدان جیلوں میں رہ کر بھی انتخابات جیت چکے ہیں۔ آج یہی کچھ عمران خان کے باب میں ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔
کہتے ہیں سیاستدان بھلا جیسا بھی ہو، اس کے مقدر کا فیصلہ عوام کو ہی کرنے دینا چاہیے۔ ماضی میں پسند نا پسند کی بنیاد پر مقتدر حلقے کچھ اہل سیاست کو ساتھ ملا کر کچھ کو نا اہل، غدار اور چور ڈاکو قرار دے کر کھیل سے باہر کرتے رہے ہیں۔ ایسے ”پروجیکٹس” کیلئے ہمیشہ ملکی مفاد کو ہی جواز بنایا جاتا رہا ہے، مگر دیکھا جائے تو ایسے فیصلوں کا نتیجہ ہمیشہ ملک کے نقصان کی شکل میں ہی سامنے آیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان کو ملکی قوانین کے تحت ہی جاری ایک قانونی عمل کے ذریعے نا اہل کر دیا گیا ہے، مگر ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بھی کچھ اَن دیکھے مضمرات کا حامل ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان جو اب تک حکومت کے خلاف فائنل راؤنڈ کھیلنے کیلئے حتمی فیصلے اور تاریخ تک پہنچنے میں تردد کا شکار تھے، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کیلئے اب یہ فیصلہ آسان ہوگیا ہے، بلکہ یوں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ فیصلہ در حقیقت ان کے مارچ کیلئے بگل ہے، سو یہ بگل اب پوری قوت سے بج چکا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کس اقدام کو ترجیح دیتے ہیں۔ گویا اس فیصلے نے کھیل کا ریموٹ عمران خان کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔
پاور گیم میں جو کچھ سامنے دکھائی دیتا ہے، حقیقت میں وہی سب کچھ نہیں ہوتا، کیا خبر آج عمران خان کی نا اہلی پر خوشیاں منانے والے کل اصل کہانی کھلنے کے بعد اسی طرح اپنا منہ نوچنے لگیں، جیسے پاناما کیس کا ابتدائی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ن لیگی بھی پی ٹی آئی والوں کی طرح مٹھائیاں بانٹتے دکھائی دیے تھے، مگر غبار چھٹا تو اس میں سے ان کیلئے ہولناکی ہی برآمد ہوئی تھی۔
روایت یہ ہے کہ سیاستدانوں کو قانون اور اداروں کے سہارے نا اہل کرنے کے فیصلے ہمیشہ نقش بر آب ثابت ہوتے رہے ہیں، ان میں کبھی پائیداری نہیں دیکھی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کی قانونی نا اہلی کی بتدریج واپسی کے عمل کی طرح عمران خان کی موجودہ نا اہلی کتنی دیر تک اپنے اثرات کھینچتی ہے!