اسلام آباد میں فلپائن کے قومی دن کی تقریب محض ایک رسمی سفارتی اجتماع نہیں تھی بلکہ یہ دو قوموں کی عظمت، قربانی اور پائیدار دوستی کا جذباتی خراجِ تحسین تھی۔
12 جون کو فلپائنی برادری نے جب یومِ آزادی منایا تو یہ تقریب آزادی کی روایتی خوشی سے کہیں بڑھ کرپاکستان اور فلپائن کے درمیان عشروں پر محیط تعلقات کی علامت بن گئی۔
پاکستان میں فلپائن کے سفیر ڈاکٹر ایمانوئل آر فرنینڈز نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کی تاریخی رفاقت، باہمی احترام اور گرم جوشی پر مبنی تعلقات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے نہ صرف فلپائن کی 1898 میں نوآبادیاتی نظام سے آزادی کی داستان سنائی بلکہ یہ بھی یاد دلایا کہ فلپائن ان ابتدائی ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 1947 میں پاکستان کے قیام کو باضابطہ تسلیم کیا۔ یہی اعتراف دوطرفہ رشتوں کی مضبوط بنیاد بنا۔
سفیر کا خطاب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فلپائن اور پاکستان دونوں قومیں سخت جدو جہد اور قربانیوں کے بعد وجود میں آئیں۔ ’’جس طرح فلپائن نے آزادی کی قیمت ادا کی، پاکستان نے بھی بہت بڑی قربانیاں دے کر خودمختاری حاصل کی،‘‘ ان کے ان الفاظ میں ایک مشترکہ شناخت کی گونج تھی ایسی قومیں جنہوں نے نوآبادیاتی زنجیروں کو توڑ کر اپنی راہیں خود متعین کیں۔
یہ مشترکہ ورثہ محض ماضی کا نوحہ نہیں بلکہ آج اور مستقبل کی شراکت داری کی بنیاد ہے۔ ایسی قومیں جو جدوجہد کی تلخی سمجھتی ہیں، وہ امن، رواداری اور پائیدار ترقی کے قیام میں بہتر شراکت دار ثابت ہوتی ہیں اور پاکستان و فلپائن نے ان اقدار کو اپنایا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک نے تعلیم، تجارت، ثقافت اور ماحولیاتی تحفظ جیسے اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔ خاص طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں تعاون کی بات کرتے ہوئے سفیر نے تسلیم کیا کہ اگرچہ دونوں ممالک جغرافیائی لحاظ سے فاصلے پر ہیں لیکن ماحولیاتی بحران کے اثرات دونوں پر یکساں ہیں۔ یہ باہمی سمجھ بوجھ، پائیدار ترقی، قابل تجدید توانائی اور قدرتی آفات سے نمٹنے میں مشترکہ اقدامات کے لیے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔
آج کے دور میں جب عالمی اتحاد بدلتے رہتے ہیں، پاکستان اور فلپائن کی مستقل اور دیرینہ دوستی ایک تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ یہ محض سرکاری تعلقات نہیں، بلکہ عوامی سطح پر بھی گہرے روابط کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں پاکستانی کارکن اور ماہرین فلپائن میں کام کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں موجود فلپائنی برادری یہاں کی ثقافت میں اپنا رنگ شامل کر رہی ہے۔
سفیر فرنینڈز نے صرف ماضی کی بات نہیں کی، بلکہ مستقبل کی ایک امیدافزا تصویر بھی پیش کی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے گزشتہ 76 سالوں میں مل کر بہت کچھ حاصل کیا ہے، آئندہ برسوں میں ہم مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں — امن، خوشحالی، اور ایک ایسا مستقبل جس میں شمولیت اور جدت ہو۔‘‘
یہ پیغام نہایت برمحل اور ضروری ہے۔ آج جب گلوبل ساؤتھ (جنوبی دنیا) عالمی منظرنامے میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، ایسے شراکت دار جو باہمی احترام پر مبنی ہوں، نہ کہ مفادات کی بنیاد پر — وقت کی ضرورت ہیں۔ تجارت، سیاحت، ثقافتی سفارت کاری اور اختراع کے میدان میں بے پناہ امکانات موجود ہیں۔
تقریب میں فلپائنی موسیقی کی دھنیں، روایتی کھانوں کی خوشبو اور ثقافتی رقص کی جھلکیاں سفارت کاری کے نرم پہلو کا بہترین مظہر تھیں۔ یہ یاد دہانی تھی کہ سفارت کاری صرف بند کمروں میں نہیں ہوتی، بلکہ مشترکہ خوشیوں، موسیقی، ذائقوں اور ثقافتی میل جول سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔
یہ شام فلپائنی شناخت کی بھرپور عکاسی تھی ، متحرک، پرجوش اور پرعزم۔ پاکستانی مہمانوں کے لیے یہ ایک قریبی ثقافت کی جھلک تھی ، ایک ایسی ثقافت جو خاندان، جدوجہد اور امن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دونوں اقوام کے لیے یہ لمحہ ایک بار پھر اس بات کا اعادہ تھا کہ سفارت کاری کا اصل مقصد باہمی تفہیم، ہمدردی اور اشتراکِ عمل ہوتا ہے۔
ایک ایسے دور میں جہاں عالمی سیاست عدم اعتماد، طاقت کی دوڑ اور علیحدگی پر مبنی ہو چکی ہے، پاکستان اور فلپائن کی دوستی ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہے اعتماد، مشترکہ اقدار اور طویل مدتی عزم کا بیانیہ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خیرسگالی کو عملی اقدامات میں بدلا جائے، وسیع تجارتی معاہدے، تعلیمی تبادلے، مشترکہ ماحولیاتی منصوبے، اور ٹیکنالوجی میں اشتراک۔
اکیسویں صدی کے چیلنجز — معاشی غیریقینی صورتحال سے لے کر موسمیاتی تبدیلیوں تک — کا سامنا کرنے کے لیے ایسی دوستی ہی ایک طاقتور محرک ثابت ہو سکتی ہے۔ ماضی کی جدوجہد سے نکلی ہوئی یہ طاقت، اب ایک ایسا مستقبل بنانے میں مدد دے سکتی ہے جو محفوظ، خوشحال اور سب کے لیے قابل رسائی ہو۔
اسلام آباد میں فلپائن کے قومی دن کی یہ تقریب یاد دلاتی ہے کہ اگرچہ پاکستان اور فلپائن جغرافیائی طور پر دور ہیں، لیکن ان کے دل تاریخ، ثقافت اور سفارتی وژن کے دھاروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ سفیر فرنینڈز نے کہا، ’’ہم ایک ساتھ مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ اور بلاشبہ، ہمیں کرنا بھی چاہیے۔
مصنف: منیر احمدایگزیکٹو ڈائریکٹرڈیوکام سینٹر برائے جیو پولیٹیکل اسٹڈیز، ماہرِ ترقیات و پالیسی تجزیہ کار ہیں
رابطہ: devcom.pakistan@gmail.com