کیمیائی جنگوں کی مختصر تاریخ اور نوعِ انسانی کے ناقابلِ تلافی نقصانات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیمیائی جنگوں کی مختصر تاریخ اور نوعِ انسانی کے ناقابلِ تلافی نقصانات
کیمیائی جنگوں کی مختصر تاریخ اور نوعِ انسانی کے ناقابلِ تلافی نقصانات

جنگوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا جس سے نوعِ انسانی کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچنا شروع ہوئے جن کا سلسلہ مدتِ دراز تک تھم نہ سکا۔

سن 1988ء میں آج ہی کے روز شمالی عراق کے کرد علاقے جلبجہ میں ہزاروں افراد کو زہریلی گیس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری عراقی صدر کے کزن پر عائد کی گئی۔

Image result for Ali Hassan Al Majid

عراقی صدر صدام حسین کے کزن علی حسن الماجد جو الزام کے تحت اس واقعے کے ذمہ دار تھے، ان کا نام جنرل کیمیکل علی مشہور ہوگیا جس کی وجہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال تھا، تاہم کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اتنا نیا نہیں ہے۔

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کیمیائی جنگ کیا ہے؟ نوعِ انسانی کو اِن ہتھیاروں سے کس حد تک نقصان پہنچا جس کی تلافی آج تک نہ ممکن نہ ہوسکی اور آج بھی انسانیت اپنے نقصانات پرخون کے آنسو رو رہی ہے۔

کیمیائی جنگ کیا ہوتی ہے؟

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہےکیمیائی جنگ دو یا دو سے زائد ممالک کے مابین اس جنگ کو کہتے ہیں جس کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جائیں، سو ہمارا اگلا سوال یہ ہونا چاہئے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے ہماری کیا مراد ہے؟

Image result for chemical weapons

کیمیائی ہتھیار ایسے ہتھیار ہوتے ہیں جن میں کیمیائی مادّوں کا استعمال کیاجاتا ہے۔ یہ ہتھیار انسان کو صرف ہلاک نہیں کرتے بلکہ اسے ایسے ایسے انداز سے بے دست و پا کرتے ہیں کہ عام آدمی کی روح تک کانپ اٹھے۔

کیمیائی ہتھیاروں کی اقسام 

ایسے ہتھیاروں کی سب سے پہلی قسم کو نرو ایجنٹس یا اعصابی ہتھیار کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، یہ ہتھیار ہمارے اعصاب پر اثر ڈال کر ہمیں بے ہوش کرسکتے ہیں اور دیگر متعدد طریقوں سے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دوسری قسم میں ایسے ہتھیار شامل ہیں جو ہمارے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر زہریلی گیسیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کلورین، فاسجین، ڈائی فاسجین وغیرہ۔ ایسے ہتھیاروں سے صرف سانس بند کرکے بچا جاسکتا ہے جو انسان عموماً زیادہ دیر نہیں کرسکتے۔

Image result for Chemical effect on Lungs

زہریلی گیسوں کے استعمال سے پھیپھڑے جواب دے جاتے ہیں۔ سانس بند ہونےسے انسان موقعے پر بے ہوش یا ہلاک ہوجاتا ہے لیکن یہ موت گولی کے ذریعے مارے جانے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔

تیسری قسم زہر کا استعمال ہے یعنی پوٹاشیم سائنائیڈ سمیت سائنائیڈ قسم کے دیگر زہر استعمال کرکے دشمن کو ہلاک کرنا۔ یہ زہر انسانی معدے میں پہنچ کر اسے انتہائی تیزی سے موت سے ہمکنار کردیتے ہیں۔

Image result for Soldier Vomitting

چوتھی قسم قے یعنی اُلٹیاں کرانے والے کیمیائی مادّوں کا استعمال ہے۔ یہ مادّے سونگھنے سے انسان کو اُلٹیاں آتی ہیں اور وہ معدے میں موجود ہر چیز کو باہر نکال دیتا ہے۔ اس کے باوجود اُلٹیاں نہیں تھمتیں، جب تک اِس بدبو یا ذائقے کا اثر ختم نہ ہوجائے۔

پانچویں قسم دشمن کو بیمار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایک مبیّنہ حقیقت ہے کہ ساری بیماریاں فطری طور پر پیدا نہیں ہوئیں بلکہ دشمن ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے کے لیے وائرس یا بیماریوں کو پیدا کرتے ہیں۔

Image result for Corona Virus in china

موجودہ دور میں سامنے آنے والا کورونا وائرس ہمارے سامنے ہے۔ ماہرینِ حیاتیات (بائیولوجی ایکسپرٹس) کے مطابق یہ وائرس انسان کا پیدا کیا ہوا ہے۔

ہمارے ہمسایہ ملک چین نے الزام لگایا کہ یہ وائرس امریکا نے بنایا ہے جبکہ امریکی حکام اِسے وہان وائرس کہہ کر چینی شہر وہان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جہاں پہلے پہل اِس وائرس کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ سب کیمیائی ہتھیار کی مثالیں ہیں۔

قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی صرف یہ 5  اقسام نہیں ہیں بلکہ سائنس کی دنیا میں ایک سے ایک نت نئے کیمیکلز ہر روز پیدا ہو رہے ہیں جن سے انسان کو ایک نئے طریقے سے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔

جتنی قسمیں ان کیمیکلز کی ہوسکتی ہیں اتنی ہی اقسام کے کیمیائی ہتھیار بھی کیمیائی جنگوں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں جو ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت ہے۔ 

کیمیائی جنگوں کی مختصر تاریخ

دستیاب انسانی تاریخ کے مطابق سب سے پہلے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جنگِ عظیم اوّل (سن 1914ء سے سن 1918ء) میں کیا گیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر زہریلی گیسیں استعمال کی گئیں جن سے ایک تخمینے کے مطابق 90ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

Image result for World War 2

جنگِ عظیم دوم (سن 1939ء سے 1945ء) کے دوران بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جسے تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا کیمیائی حملہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

Image result for atom bomb

اُس وقت سے لے کر اب تک متعدد بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ سب سے زیادہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال 1980ء سے لے کر 1988ء تک ہونے والی ایران عراق جنگ میں کیا گیا۔

بعد ازاں شام کی شہری جنگ (سول وار) میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال دیکھنے میں آیا۔ اِسی طرح سرد جنگ جو روس اور امریکا کے درمیان سن 1945ء سے لے کر 1991ء تک جاری رہی، اس کے دوران بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔

Image result for cold war

یہ بات سمجھنے سے تعلق رکھتی ہےکہ روس اور امریکا اُس وقت سپر پاور کے عنوان سے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے جس پر جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جبکہ خاموش جنگ آج بھی جاری ہے۔

بعد ازاں دونوں ممالک اور دیگر نے دنیا بھر میں تمام کیمیکل ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا معاہدہ کیا جو جنگِ عظیم اوّل اور دوم کےساتھ ساتھ سرد جنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔ 

ناقابلِ تلافی نقصانات

کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے نوعِ انسانی کو کروڑوں انسانی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایٹم بم کے استعمال نے ہیرو شیما اور ناگاساکی جیسے شہروں کو عشروں کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دیا۔

Image result for DISABLE CHILD

خاص طور پر ایٹم بم کے استعمال سے جنگ کے اختتام کے بعد تک ایٹمی تابکاری سے ہونے والے نقصانات کے باعث زمین بنجر ہوجاتی ہے۔ بچے اپاہج پیدا ہوتے ہیں اور جسمِ انسانی کو طرح طرح کی بیماریوں کا سامنا رہتا ہے۔

جنگیں کیسے روکی جائیں؟

جنگوں کے ناقابلِ تلافی نقصانات نوعِ انسانی آج تک بھگت رہی ہے۔ جنگوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بند ہونا چاہئے، اس پر اتفاق کے باوجود آئندہ جنگوں میں ایسے ہتھیاروں کے عدم استعمال کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

Image result for United Nations

اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور  بین الممالک تنظیموں سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ جنگیں روک سکتی ہے نہ ان میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک کو اپنے مفادات کا تحفظ نوعِ انسانی سے زیادہ عزیز ہے۔

جب تک نوعِ انسانی جنگوں کےخلاف مذاہب، اقوام اور رنگ و نسل کی تفریق سے نکل کر متحد نہیں ہوتی ، ایسے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔اقتدار، طاقت اور سپر پاور کی جنگ جب تک ختم نہ ہو، جنگیں رکتی نظر نہیں آتیں۔

اس کے باوجود دنیا امید پر قائم ہے۔ اقوامِ عالم یہ امید رکھتی ہیں کہ بڑے سے بڑے مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل کیاجاسکتا ہے اور اگر نوعِ انسانی 21ویں صدی کے کسی عشرے میں اتحاد کی اہمیت سمجھ لے تو جنگیں بھی روکی جاسکتی ہیں۔ 

Related Posts