کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کیسے ہوئے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کیسے ہوئے؟
کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کیسے ہوئے؟

31 اگست کی امریکی فوج کے انخلا کی آخری تاریخ سے قبل کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دو ہلاکت خیز دھماکے ہوئے ، جہاں شہری اور غیر ملکی فوجی ، طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کو خالی کرنے کے لیے جمع تھے۔

پینٹاگون اور افغانستان کے محکمہ وزارت صحت کے مطابق کابل ایئرپورٹ پر دو بم دھماکوں میں امریکی فوجیوں سمیت کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ بم دھماکے اس وقت ہوئے ہیں جب مغربی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو ایئرپورٹ سے دور رہنے کی تنبیہہ کی تھی، کیونکہ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق اسلامک اسٹیٹ گروپ کی افغان شاخ آئی ایس کسی وقت بھی حملے کرسکتی تھی۔

کیا ہوا؟

کابل ایئر پورٹ کے باہر دو دھماکے ہوئے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ دھماکے ایئرپورٹ کے اندر جانے والے گیٹ کے قریب ہوئے تھے۔

ایک حملہ آور نے عین اس  وقت اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جب لوگ گندے پانی کی نہر کے پاس کھڑے تھے۔

دوسرا دھماکہ بیرن ہوٹل کے قریب ہوا جہاں ، افغانی ، برطانوی اور امریکی شہریوں اور فوجیوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ یہ شہری افغانستان سے انخلاء کے لیے ایئرپورٹ کے قریب جمع ہوئے تھے۔

حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے اکثریت کو کابل کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی اور برطانوی فوجیوں کو حال ہی میں عقبی گیٹ کے اطراف کے علاقے کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ حملہ آور نے لوگوں کے ہجوم پر فائرنگ بھی کی ، جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ طالبان محافظوں نے ہوائی فائرنگ کی تھی۔

ذمہ داری کس نے قبول کی؟

اسلامک اسٹیٹ خراسان (آئی ایس آئی ایس-کے) کے عسکریت پسندوں حملے کی ذمے داری قبول کی ہے، یہ وہ عسکریت پسند ہیں جو اس قبل شام اور عراق میں امریکی افواج کے خلاف لڑ چکے ہیں۔ افغان طالبان نے آئی ایس آئی ایس کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

آئی ایس کے پی کے دہشتگردوں کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے ، جو بنیادی طور پر افغانستان میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ 2020 میں آئی ایس آئی ایس کے دہشتگردوں نے کابل میں ایک گائنی اسپتال پر حملہ کرکے خواتین اور بچوں کو قتل کردیا تھا۔

طالبان اہلکار عبدالقہار بلخی نے کہا: “ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں ، حالانکہ میرے پاس مکمل تفصیلات نہیں ہیں۔ لیکن معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا دہشت گردی کا ایک عمل ہے جس کی پوری دنیا کو مذمت کرنی چاہیے۔

کیا یہ حملے حیران کن ہیں؟

بدھ کی رات مغربی قوتوں کی جانب سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ داعش کسی بھی وقت حملے کرسکتی ہے۔ انتباہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے بعد داعش کی قوت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔

امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو ایئرپورٹ کے تینوں دروازوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے فوری طور پر ایئرپورٹ کو خالی کردیں۔ ادھر آسٹریلیا ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے بھی اپنے شہریوں کو ایئرپورٹ پر نہ جانے کا مشورہ دیا۔

مغربی عہدیداروں نے ایک بڑے حملے کی وارننگ دیتے ہوئے لوگوں کو ایئر پورٹ چھوڑنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن اس مشورے سے افغانیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ امریکا خود تو 20 سال بعد 31 اگست کو اپنے فوجیوں اور شہریوں کا انخلاء مکمل کرلے گا۔

امریکی انخلا کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

امریکی صدر جوبائیڈن نے مہلک خودکش بم حملے کے باوجود افغانستان سے امریکی شہریوں اور دیگر افراد کے انخلاء کو مکمل کرنے کے عزم اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حملے میں ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کا بدلہ کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ “ہم آپ کو ماریں گے اور آپ کو اس کی قیمت چکانا ہوگی۔”

دوسری جانب آسٹریلیا کے وزیر دفاع ڈٹن نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے ان کے شہریوں اور فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے فوجی بحفاظت کابل سے متحدہ عرب امارات پہنچ گئے ہیں۔

Related Posts