افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدارتی محل کے قریب 3راکٹ حملے کیے گئے جس کے دوران چلائے گئے راکٹ صدارتی محل کے قریب گرے۔
بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ کابل میں واقع صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کیے گئے ہیں۔ راکٹ صدارتی محل کے قریب گر گئے۔
افغان میڈیا کے مطابق راکٹ حملوں کے دوران کابل میں صدارتی محل کے اندر عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی جارہی تھی، تاہم نمازی راکٹ حملے سے محفوظ رہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کے نتیجے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
دہشت گردی میں ملوث افراد کی تلاش شروع کردی گئی۔ واقعے میں افغان طالبان کے ملوث ہونے کا خدشہ ہے تاہم طالبان نے تاحال حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
مجموعی طور پر 34 ہیکٹر یعنی 83 ایکڑ رقبے پر مشتمل ارگ (افغان صدارتی محل) دیہہ افغاناں اور وزیر اکبر خان کے درمیان میں واقع ہے۔سن 1880 میں برطانوی فوج نے یہ محل تعمیر کیا۔
افغان تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو امیر عبدالرحمان خان سے لے کر موجودہ افغان صدر سعید غنی تک تمام صدور نے ارگ (صدارتی محل) میں رہائش اختیار کی جو اس عمارت کا منفرد اعزاز ہے۔
خیال رہے کہ اِس سے قبل امریکہ سمیت 16 ممالک کے سفارتی مشنز نے طالبان سے کہا کہ وہ افغانستان میں اپنی حالیہ جنگی کارروائیاں فوری طور پر روک دیں جو تنازع کے مذاکرات کے ذریعے حل اور شہری آبادی کو نقصان پہچانے کے علاوہ ان کو بے گھر کرنے کا بھی سبب بن رہی ہیں۔
امریکی سفارت خانے سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ طالبان کی حالیہ کارروائیاں ان کے دوحہ میں کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل چاہتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ طالبان کا جارحانہ رویہ دوحہ امن عمل اورمذاکرات کی بنیاد پر ہونے والے سمجھوتے کی حمایت کے دعوے کے برعکس ہے۔ طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی ہلاکتوں سمیت ٹارکٹ کلنگ، افغان شہریوں کی نقل مکانی، لوٹ مار اور ذرائع مواصلات کی بربادی جیسے واقعات پیش آئے۔
مزید پڑھیں: طالبان جنگی کارروائیاں فوری روک دیں۔امریکہ سمیت 16 ملکوں کا مطالبہ