لاہور: بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں ایک حیران کن واقعہ پیش آیا ہے۔ پولیس افسران کے ایک گروپ کو مفت برگر نہ دینے پر پولیس نے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے 19 ملازمین کو حراست میں لے لیا۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے کارکنان کو رات سات گھنٹوں تک بھوکہ پیاسا حراست میں رکھا گیا۔ ریسٹورینٹ کے عملے نے بتایا کہ گرفتار ہونے والوں میں زیادہ تر نوجوان تھے، جن میں یونیورسٹی کے متعدد طلبا شامل ہیں۔
جنوری 2021 میں اسامہ ستی اور سلطان نذیر کو بالترتیب اسلام آباد اور کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔ یہ الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ پولیس کی بربریت اور طاقت کے بےجا استعمال کی عکاسی کرتے ہیں۔
عوامی سروے اور حکومتی احتساب کے اداروں کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی عوام اگر کسی سے خوفزدہ ہے تو وہ پولیس ہے ۔ سب سے زیادہ شکایات بھی پولیس کے خلاف درج ہوتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں احتساب کا کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ سطح پر بدعنوانی راسخ کرگئی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق پولیس یا عدالتوں سے واسطہ پڑنے والے 70 فیصد افراد کو اپنا نکلوانے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے۔ اور یہی طریقہ تقریباً تمام تھانوں میں رائج ہے۔ جو یہاں مختص کیے جانے والے ناکافی وسائل کے مسئلے کی عکاسی کرتے ہیں۔
انتخابات کے وقت سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں پولیس اصلاحات کے دعوے کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ پارٹی کے ذریعہ پولیس کو سیاسی مخالفین اور ناجائز کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام دوست پولیس فورس ایک مضحکہ خیز خواب بنی جارہی ہے۔ اور عام شہری پولیس گردی کا شکار ہے۔
چونکہ پولیس داخلی سلامتی کے لئے براہ راست ذمہ دار ہے اور امن و امان کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ، لہذا ، پولیس سروس میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ پولیس کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ میرٹ پر بھرتیوں اور کسی سیاسی مداخلت سے پاک بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک ہی وقت میں پولیس کے اہل خانہ کو صحت اور تعلیم جیسے معاشرتی فوائد فراہم کیے جانے چاہئیں ۔ پولیس اہلکاروں کو عوامی معاملات اور نرم خوئی کی تربیت دی جانی چاہئے۔ عام لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ دوستانہ اور مخلصانہ ہونا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں : شہری کو حبس بےجا میں رکھنے پر سی ڈی اے کے افسر کے خلاف مقدمہ درج