کورونا وائرس جیسے موذی مرض کے دوران ہمارے معاشرے میں گمراہ کن اور غلط معلومات کا تبادلہ خیال کیا گیا۔ گمراہ کن خبروں کو پھیلانے کے لیے سماجی رابطوں کے ویب سائٹس ٹوئٹر، واٹس ایپ ، زوم اور فیس بک جیسے پلیٹ فارم کا استعمال نمایاں طور پر کیاگیا۔
کورونا وائرس جان لیوا مرض ہے مگر پھر بھی ساری دنیا میں غلط معلومات کو پھیلانے کے لیے اکثریت نے ڈیجیٹل میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا۔ دنیا کے بہت سارے حصوں میں ویکسین کی خوراک لینے میں لوگ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر گمراہ کن نظریات چل رہے ہیں۔
جعلی خبریں میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں جبکہ درست خبروں کو سوشل میڈیا سے غائب کردیا جاتا ہے۔ جعلی خبریں آج اتنی عام کیوں ہوگئی ہیں؟ کیا واقعی یہ نئی حقیقت ہے؟ اتنے بڑے پیمانے میں پھیلاؤ کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
انفوڈیمک:
وبائی مرض کے آغاز میں ہی عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے جعلی خبروں سے بچنے کے لیے’انفوڈیمک‘ کی اصطلاح تیار کی تاکہ غلط اطلاعات کے سیلاب اور جعلی مواد کے پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ، ٹیڈروس اذھنم کا کہنا ہے کہ “ہم صرف وائرس سے نہیں لڑ رہے ہیں ، بلکہ ہم ان تنقید کرنے والے اور سازشی سوچ کی عکاسی کرنے والے کے خلاف نبرد آزما ہیں جو غلط اطلاعات کو آگے بڑھاتے ہیں۔”
اقوام متحدہ کے اعلی عہدیداروں نے غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اور وائرس کی سنگینی اور صحت سے متعلق بار بار انتباہ جاری کیا اور عوام کو غلط خبروں کے برعکس حفاظتی ٹیکے لگانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق جتنا کورونا وائرس حقیقی ہے اس طرح انفوڈیمک بھی حقیقی ہے ۔ ہمیں اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اگر جھوٹی خبروں کی اشاعت کو نہ روکا گیا تو یہ وائرس مزید تیزی سے پھیلے گا کیونکہ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی جعلی خبریں تیزی سے وائرل ہوجاتی ہیں اور صارفین کی ایک بڑی تعداد ان سے متاثر ہو جاتی ہے۔
جعلی خبریں اور نامعلوم معلومات
جعلی خبریں یقینا کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ حقیقت کو تبدیل کرنے کےلیے ہمیشہ سے ہیرا پھیری اور جھوٹ کا شہارا لیا جاتا رہا ہے۔ فریب زدہ بیانیے پر مشتمل پروپیگنڈا عام طور پر ریاستوں یا سیاسی رہنماؤں کا وطیرہ ہوتا تھا اور اس کا مقصد بیرون ملک دشمنوں یا مخالفین کو گھیرے میں رکھنا ہوتا تھا۔
غلط معلومات کے معاملے میں ، خبر رساں ادارے اور نامور صحافی بھی سنسنی خیز سرخیاں لکھ سکتے ہیں اور یہ اکثر سوشل میڈیا پر سیکڑوں یا ہزاروں بار شیئر کی جاتی ہیں۔
یورپی یونین ڈس انفولیب کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی سطح پر جھوٹ پر مبنی پروگرام تشکیل دیا تھا جس کا مقصد پاکستان کو بنیادی طور پر کمزور کرنا تھا۔
اس آپریشن کو دیئے جانے والے نام ، ‘انڈین کرانیکلز’ نے جعلی میڈیا ، این جی اوز کا استعمال کیا اور یہاں تک کہ پاکستان کے بارے میں “منفی مواد” پھیلانے کے لئے لوگوں کی شناخت کو مخفی رکھا۔
آخری الفاظ
سوشل میڈیا کمپنیوں کو چاہیے کہ جھوٹ اور زہریلے پن پر منبی مواد کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ ان سائٹس کی نگرانی بھی کریں جن پر سوشل میڈیا صارفین زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ایک منظم چیز ہے لیکن اس میں بھی وقت کے ساتھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : نامورغیرملکی کرکٹرز ایچ بی ایل پی ایس ایل 6 میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے منتظر