غریب کی مدد یا اپنی نمائش؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رمضان المبارک کے بابرکت ایام کے تیسرے عشرے کا آغاز ہوچکا ہے، اس ماہ مبارک میں جہاں امت مسلماں بدنی عبادت میں حد درجہ مشغول رہتی ہے، وہیں مالی عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی دکھائی دیتی ہے۔ ان ایام میں خدا کی رحمت کو متوجہ کرنے کا جو بھی طریقہ میسر ہو وہ اپنانا چاہیے۔ انہی طریقوں میں سے ایک طریقہ انسانیت کی خدمت بھی ہے، چاہے وہ علاج کی صورت میں ہو، مالی تعاون کی صورت میں ہویا کوئی بھی ایساقدم جو انسانیت کے تحفظ کے لئے ہو اٹھایا جائے، وہ اس میں داخل ہے۔لیکن اس دوران یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک انسان کے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو صرف انسان اور اس کے رب تک ہی محدود رہیں تو باعث اجر و ثواب ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کا شوشا کر کے اسے اپنی نمائش و پرچار کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں گے تو ایسے اقدام پر میرا رب اس بات پر قادر ہے کے اس عمل پر جزاء کے بدلے سزا دے دے، اور وہ اعمال بجائے رحمت کے زحمت بن جائیں۔

میڈیا کا دور ہے، لمحوں میں انسان کا کیا عمل زمین کے دوسرے کونے کو چھو جاتا ہے، اس دوران ہماری نگاہوں سے کچھ ایسی کوتاہیاں سرزد ہوئیں جنہیں ہم چاہ کر بھی نہ بھلا پائے، مخیر حضرات کا ایک ایسا طبقہ ہماری نظروں سے گزرا جو غریب و لاچار انسان کی مشکل گھڑی میں رحمت کے بجائے زحمت بن کر نمودار ہوا ۔ میڈیا کے توسط سے ہمیں کچھ ایسے مناظر دیکھنے کو ملےجہاں ایک یا چند آدمی مل کر کسی کی مدد کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ایک عدد یا بوقت ضرورت متعددکیمرہ مین اس نام نہاد امداد یا صدقات و خیرات کے وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر وہ کسی غریب کی ہتھیلی پر چند ٹکے کی شے بھی رکھتے ہیں تو کیمرہ مین فوراً مختلف اینگلز سے تصویر شوٹ کرتے ہیں، اور میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔ جہاں ان کی سخاوت کا پر چار ہوتا ہے وہیں غریب کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ سفید پوش معزز انسانوں کو رسوا کیا جاتا ہے۔ اسے غریب کی مدد کہا جائے یا اپنی نمائش؟

اب اگر ان حضرات کے اس معاملےکو سامنے رکھ کر اسلام کی تعلیمات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں درس ملتا ہےکہ اس قسم کے تعاون میں اصل یہ ہے کہ راز داری سے کام لیا جائے ، یعنی چپکے سے کسی کی مدد کی جائے، تاکہ آپ کا یہ تعاون کسی غریب انسان کی شرمندگی کا باعث نہ بنے۔ جیسا کہ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے: تین قسم کے لوگوں سے اللہ بہت ہی محبت کرتا ہے، ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ اور سائل کے علاوہ کسی اور کو خبر تک نہ ہو۔

اس کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی ہمیں یہی درس ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند ایسے مواقع بھی ہیں جہاں شریعت اعلانیہ خرچ کرنے کو جائز قرار دیتی ہے ، جہاں کوئی مصلحت ہو مثلا دوسرے لوگوں خرچ کرنے کی ترغیب دینا ، یا لوگوں کے شکوک و شبہات کو دورکرنا ہووہاں شریعت اعلانیہ خرچ کی اجازت دیتی ہے۔لیکن جہاں بات نمود نمائش کی حد کو چھونے لگے تو اس کی اجازت نہیں ملتی ، بلکہ یہ تعلیم ملتی ہے کہ اگر اچھا صدقہ دے سکتے ہو تو بہت بہتر ، نہیں تو ایسا صدقہ جس کے بعد تکلیف دی جائے اس سے بہتر ہے کہ اچھی بات کہہ لیا کرو۔

علماء فرماتے ہیں کہ چار وجوہات کی بنا پر خدا کی راہ میں دیا گیا مال ضائع ہو جاتا ہے: (۱)۔اللہ تعالی کی رضا مقصود نہ ہو۔ (۲)۔ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔ (۳)۔ احسان جتانا مقصود ہو۔ (۴)۔ صدقہ دے کر لینے والے کو کوئی بات کہہ کر تکلیف پہنچائی جائے۔ لہذا مال خرچ کرنے کا صرف ایک مقصد ہونا چاہیے اور وہ رب تعالی کی رضا؛ کیوں کہ قرآن میں ارشاد ہے: اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح کہ وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔(البقرہ :۲۶۴)

اسی لئے التجا ہے ایسے مخیرحضرات سے جو کسی غریب کی ہتھیلی پر کچھ رکھنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی اس عظیم عبادت کو کھلونا اور اپنی نمائش کا ذریعہ بنا کر غریب کا مذاق نا اڑائیں اور غریب انسان کی اس مشکل گھڑی میں کوئی بھی ایسا طریقہ اپنانے سے گریز کریں جو آپ کی اس عبادت کو عقوبت کی طرف لے جائے۔ اور غریب کے معاون بننے کے بجائے آپ اس کے مجرم بن جائیں۔

Related Posts