بھارتی کپاس کی درآمد منسوخ کرنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر بے چین ہے،میاں زاہد

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں گندم کا بحران،بھارت سب سے سستا آپشن ہے،میاں زاہدحسین
پاکستان میں گندم کا بحران،بھارت سب سے سستا آپشن ہے،میاں زاہدحسین

کراچی:ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بھارت سے کپاس اور دھاگے کی درآمد کے فیصلے کو منسوخ کرنے سے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے اور کروڑوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کے مستقبل کے متعلق سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

ٹیکسٹائل کے شعبہ میں بے چینی اور عدم استحکام پھیل گیا ہے جبکہ اس فیصلے سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے اکنامک کو آرڈینیشن کونسل کے فیصلے کو مسترد کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیداراہم معاملات میں ایک پیچ پر نہیں ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مشیر تجارت عبدالرزاق داؤداور ٹیکسٹائل سیکٹر کی جانب سے بھارت سے کپاس اور دھاگے کی درآمد کی سفارش وقت کا تقاضہ ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا ہے جس کا نقصان ملکی معیشت کو پہنچے گا۔

اس فیصلے سے اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت ملے گی۔حکومت کے پاس اقتصادی بحالی کا کوئی پلان ہے نہ معیشت کی کوئی سمت متعین کی گئی ہے جو رہی سہی سرمایہ کاری کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

حالیہ فیصلے سے نہ صرف ذخیرہ اندوذوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور مقامی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہو گا بلکہٹیکسٹائل سیکٹر اور برآمدات کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا ہو گا، ایکسپورٹ آرڈر کی تکمیل نہ ہونے سے ملکی ساکھ خراب ہو گی اور بند ہونے والی ٹیکسٹائل ملز کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ سکتی ہے۔

اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پاکستانی ٹیکسٹائل کے خریداروں کو منفی پیغام ملے گا اور وہ اس ملک سے کاروبار نہیں کریں گے جہاں صنعت کو کپاس اور دھاگہ نہ مل رہا ہو جبکہ کپاس کی پیداوار میں 2014-15 کے مقابلہ میں پچاس فیصد کمی آ چکی ہو۔

میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مہنگی کپاس اور مہنگی توانائی کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹ سیکٹرز کی برآمدات کو خریدار تک پہنچانے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

جہازا ور کنٹینر زکے کرایوں میں اضافہ کے باعث سمندر کے راستے تجارت سات سو فیصد مہنگی ہو چکی ہے جبکہ ترسیل کا وقت بھی پچیس دن سے بڑھ کر ایک سو پانچ دن ہو چکا ہے۔

بھارت سے تجارت نہ کرتے ہوئے ملک سے کپاس اور دھاگے کی برآمدات کو جاری رکھنے سے قلت اور قیمت میں اضافہ ہی ہو گااسی لئے ویلیو ایڈڈ سیکٹر کپاس اور دھاگے کی برآمدات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی حفیظ شیخ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی پالیسیوں کی کوئی سمت نہیں ہے جبکہ ڈالر کو غیر ضروری طور پر مہنگا کیا گیا ہے جس سے قرضے بڑھ گئے اور معیشت کو نقصان پہنچا۔

Related Posts