مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

fall of dhaka

آج بنگلہ دیش اپنے قیام کی 50 ویں سالگرہ منارہا ہے، بنگلہ دیش14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔

26 مارچ 1971 کومشرقی پاکستان نے پاکستان سے علیحدگی اور ایک آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا تاہم اس کے بعد پاکستان کے حالات نہایت کشیدہ ہوگئے اور سرچ لائٹ کے نام سے ایک آپریشن کاآغاز کیا گیا جو 16 دسمبر 1971 کو جنگ بندی کے معاہدے تک جاری رہا۔ اس دوران ہزاروں جانیں گئیں، ایک عدد مکمل جنگ بھی ہوئی اور بالآخر بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بن گیا۔

مشرقی پاکستان
1947ء کو تقسیم ہند کے وقت بنگلہ دیش پاکستان کے مشرقی حصے کے طور پر برطانیہ سے آزاد ہوا اوربنگلہ دیش کی موجودہ سرحدیں 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر وجود میں آئیں اورپاکستان کے دونوں مشرقی و مغربی حصوں کے درمیان 1600 کلومیٹر (ایک ہزار میل) کا فاصلہ حائل تھا اور مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی، جسے مغربی پاکستان کی حکومت نے مزید وسیع کر دیا جو بالآخر 1971ء میں ایک خونی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنی۔

بنگلہ دیش کو اس جنگ میں بھارت کی مکمل مدد حاصل رہی اور بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلہ دیش وجود میں آیا تاہم بنگلہ دیش اپنے قیام سے مستقل سیاسی افراتفری کا شکار ہے اور اب تک 13 مختلف حکومتیں بر سر اقتدار آ چکی ہیں اور کم از کم چار فوجی مارشل لا ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش کے قیام کی وجوہات
عام طور پر 1970کے انتخابات کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے تاہم یہ آدھا سچ ہے۔

12نومبر 1970کو مشرقی پاکستان، بھارت ، مغربی بنگال میں انتہائی شدید نوعیت کا سیلاب آیا جس میں پانچ لاکھ اموات ہوئیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔

متاثرین سیلاب کی امداد کے لئے پوری دنیا میں ایک مہم چلی جس کے بعد پیپلز پارٹی نے صرف مغربی پاکستان میں الیکشن لڑا اور عوامی لیگ نے صرف مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔

انتخاب کے نتیجے میں عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ، اس کا موقف تھا کہ چونکہ سب سے زیادہ نشستیں اس کے پاس ہیں، لہٰذا اسے حکومت سازی کی دعوت دی جائے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ اس کی شمولیت کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکتی ، لہٰذا حکومت کا حق اسے حاصل ہے۔

16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا، جس کی وجوہات میں سیاستدانوں کی حصول اقتدار کے لئے جنگ، ادھر ہم ، ادھر تم کا نعرہ، دیرینہ دشمن کے مذموم عزائم سے مجرمانہ چشم پوشی، لوگوں میں احساس محرومی، دفاعی افرادی قوت کی کمی اور چانکیا پوری کا اکھنڈ بھارت کا جنون شامل تھے۔

جنگ آزادی
بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو حریت پسندوں کے خلاف پاک فوج کے عسکری آپریشن سے ہوا جس کے نتیجے میں مقامی گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں نے عسکری کارروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔

مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا اور بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔

یہ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہتھیار ڈالنے کا سب سے بڑا موقع تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے ایک بڑی اسلامی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جس کی رپورٹ آج بھی موجود ہے۔

مکتی باہنی
مکتی باہنی ایک عسکری تنظیم تھی جس نے پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا، اسے بھارت کی آشیر باد حاصل تھی۔ اس تنظیم کے کارکنوں نے اپنے ہم وطنوں اور بہاریوں کے قتل عام میں آگے بڑھ کر حصہ لیا اور دہشت گردی اور وحشت کی دردناک تاریخ رقم کی۔ اس میں ابتدا میں نہ صرف بنگالی شامل تھے بلکہ بھارتی افواج کے لوگ بھی تھے جنہوں نے اسے گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی اوراس گوریلا تنظیم کی تشکیل بھارتی فوج کے سابق میجر جنرل اوبین نے 1969ء میں ملٹری اکیڈمی دہرہ دون میں کی تھی۔پاک فوج کے سابق کرنل عثمانی اس کے سر براہ تھے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کی مسلح افواج کے پہلے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔

پاکستان کی معذرت اور آگے بڑھنے کا عزم
11 اپریل 1974 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے خبر کے مطابق 10 اپریل کو پاکستان نے بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ کے دوران کی گئی زیادتیوں پر معذرت کی ہے جس کے بعدپاکستان کو 195 شہری واپس مل گئے جن پر بنگلہ دیش قتل اور ریپ کے مقدمات چلانا چاہتا تھا ۔

اخبار کے مطابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے استدعا کی کہ بنگلہ دیش کے عوام ماضی کی غلطیوں کو معاف کر دیں اور بھلا دیں تاکہ ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے جبکہ وزیر اعظم بنگلہ دیش شیخ مجیب نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے عوام 1971 میں ہوئی تباہی اور مظالم کو بھلا دیں اور ایک نئی شروعات کریں جس کے بعدسہ فریقی معاہدہ عمل میں آیا اوراس معاہدے کے تحت پاکستان کے 93 ہزار جنگی قیدی اگلے چند ماہ میں پاکستان کو واپس کر دیے گئے۔

Related Posts