اسلام آباد:شہر اقتدار میں ایئرپورٹ کے امیگریشن کاونٹر سے بدعنوانیوں کا خاتمہ تو دور کی بات اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا نے گزشتہ روز ایف آئی اے کے تمام ونگز میں کام کرنے والوں کو یونیفارم لینے کی پابندی کے ساتھ امیگریشن میں صرف اٹھارہ ماہ کی پوسٹنگ کی پابندی عائد کی ہے، یہ ضوابط پہلے بھی کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔
عملاً جوصورتحال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایف آئی اے کا ایک انسپکٹر عبدالرحمان 2013ء سے 2015ء تک امیگریشن میں ڈیپارچر سیکشن میں تعینات رہنے کے بعد ترقی کر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گیا اور 2015سے2020بیس میں بھی ڈیپارچر میں بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہے۔
اس نیٹ ورک میں صرف عبدالرحمن نہیں بلکہ ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں موجود چند کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں جو عبدالرحمن جیسے لوگوں کو من پسند پوسٹنگ دلواکر کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔
انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق ساؤتھ افریقہ اور ترکش سائپرس کے لیے فی آدمی 200ڈالر سے 300 ڈالر لئے جاتے ہیں زیادہ تر اسٹوڈنٹ ویزہ اور ورک پر منٹ والے لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس جعلی دستاویزات ہوتی ہیں اور ان کی اصل منزل ترکش سائپرس سے یورپین سائپرس ہوتی ہے۔
اس دھندے میں ای سیون میں سائپرس ایمبیسی میں بعض پاکستانی ملازم ہیں جو جعلی دستاویزات تیار کرنے سے لے کر وزارت خارجہ سے جعلی تصدیقی مہریں لگانے میں بھی سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، واجد عبدالرحمن کی دو ہزار تیرہ سے دو ہزار بیس تک تعیناتی اور اسلام آباد سے ترکی ترکش سائپرس جانے والوں کا ریکارڈ چیک کرالیں تو یقینا ان کے محکمے کی درجنوں کالی بھیڑیں جیل میں ہوگی۔