کراچی: ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ گندم کے بحران سے عوام کی اکثریت کا گھریلو بجٹ ابتری کا شکار ہو گیا ہے اور کروڑوں افراد مزید غریب ہو گئے ہیں۔
گندم دنیا کی اہم ترین فصل ہے اورپاکستان گندم پیدا کرنے والاساتواں بڑا ملک ہے مگر اس شعبے پر مافیا کی اجارہ داری نے عوام کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ گندم کے شعبے میں کرپشن اور مافیا کی من مانیاں ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گندم بحران سے قبل ایک عام آدمی اپنی آمدنی کا 22 فیصد تک گندم خریدنے پر لگاتا تھا جس میں اب زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری طرف کروناوائرس کی وجہ سے عوام کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے عوام کا جینا محال ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے افراط زر میں اضافے کے خوف سے گندم کی امدادی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے بجائے اسے 1650 روپے من رکھا ہے۔
جو کاشتکاروں کی توقعات اور پڑوسی ممالک سے کہیں کم ہے جس سے کسانوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں گندم سستی رکھنے سے اسمگلنگ بھی بڑھے گی جس سے مقامی منڈیوں میں قیمتیں کم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونگی۔
حکومت کا گندم کی خریداری، ذخیرہ کرنے اور فلور ملوں کو فراہمی کا نظام غیر شفاف ہے جس سے ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے متعین کردہ امدادی قیمت اور بار دانہ کی فراہمی سے بڑے زمیندار فائدہ اٹھا جاتے ہیں جبکہ چھوٹے کاشتکار اپنی پیداوار آڑھتیوں کو سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو انکا استحصال ہے۔
حکومت گندم کی خریداری کے لئے بینکوں سے سود پر قرضہ لیتی ہے جس میں بروقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافہ ہوتا ہے اور گندم کے شعبے میں بھی گردشی قرضہ جنم لیتا ہے جس کا سارا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کے لئے یہی بہتر ہو گا کہ ملک میں گندم کی صورتحال پر کڑی نظر رکھتے ہوئے سارے عمل میں اپنا کردار کم کرے اور اس پراسس میں بچنے والے سرمائے کو زرعی شعبے کی ترقی کیلئے استعمال کرے اور اس سارے معا ملے میں فلور ملز ایسوسی ایشن کی سفارشات کو مد نظر رکھا جائے۔