ہم نے سستی ایل این جی سے 238 ملین ڈالرز بچائے۔ندیم بابر کا شاہد خاقان عباسی کو جواب

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایل این جی کی خریداری پر شاہد خاقان عباسی اور ندیم بابر آمنے سامنے آگئے
ایل این جی کی خریداری پر شاہد خاقان عباسی اور ندیم بابر آمنے سامنے آگئے

اسلام آباد: وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے مابین انرجی سیکٹر پر گفتگو ہوئی جس کے دوران ندیم بابر نے کہا کہ ہم نے سستی ایل این جی خرید کر 238 ملین ڈالرز بچائے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق  نجی ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں انرجی کا سوائے ایل این جی کے، کوئی حل نہیں ہے۔ اگر ایل این جی نہ آتی تو آپ کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہوتا۔ خوشی ہے کہ موجودہ حکومت اِس بات کا اعتراف کرتی ہے۔

گفتگو کے دوران سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 2 ٹرمینل لگ گئے تھے جن میں 12 شپس ماہانہ کی گنجائش ہے جو حکومت نے خریدی ہوئی ہے۔ ملک میں 15جہازوں کی گنجائش پیدا کی  جاسکتی ہے۔ ہم نے 8 جہازوں کا سودا طویل مدتی اور وسط مدتی بنیادوں پر کر دیا تھا۔ قطر کے ساتھ 15 سال کا ہے جبکہ اٹلی سے بھی 1 جہاز کا معاہدہ ہے۔

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 8 جہازوں کا سودا ہم کر گئے تھے، 4 حسبِ ضرورت آپ خرید سکتے تھے۔ پاکستان کی طلب واضح ہے۔ ہم دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہیں جو گیس کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم گیس کے پرانے استعمال کنندہ ہیں۔ آج 7 کارگوز کا سودا موجود ہے۔ 5 موجودہ گنجائش میں لیے جاسکتے ہیں۔آج آپ پاکستان میں 6 ایڈیشنل کارگوز لاسکتے ہیں۔ 

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 1300 ملین کیوبک فٹ روزانہ کی گیس آپ سسٹم میں ڈال سکتے ہیں۔ سردیوں میں ہمیں گیس صنعتوں، سی این جی، پاور پلانٹس اور گھریلو استعمال کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اضافی گیس ڈالے اور نئے کارگو خریدے۔ گرمیوں میں بھی گیس کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ پاور پلانٹس چلائے جاسکیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرا کسی پر کوئی الزام نہیں ہے۔ ایل این جی کے معاملے میں مجھ پر 2 کیسز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمینل نہیں لگائے گئے، جس کے بعد میزبان کامران خان نے معاونِ خصوصی ندیم بابر کو گفتگو کی دعوت دی۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کہا کہ میں کئی سالوں سے شاہد خاقان عباسی کو جانتا ہوں۔ ن لیگ کے دورِ حکومت میں جب شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم تھے، ایل این جی کو گیس کی بجائے پٹرول ڈکلیئر کرایا گیا جس کا مطلب یہ بنا کہ یہ گیس کی اوسط قیمت میں شامل نہیں ہوسکتی۔

معاونِ خصوصی ندیم بابر نے کہا کہ ایل این جی صرف اسی کو دی جاسکتی ہے جو اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو۔ ہم گھریلو صارفین کو ڈھائی یا پونے 3 سو روپے پر گیس دے رہے ہیں۔ ایل این جی 14 سو روپے پر آرہی ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ ملک کو ایل این جی چاہئے۔ ن لیگ نے پورے 5 سال 1 بھی نیا بلاک ٹینڈر نہیں کیا ای اینڈ پی کیلئے، اس کیلئے ایل این جی لانا لازمی تھی۔

یہاں ایک مثال دیتے ہوئے ندیم بابر نے کہا کہ 2016ء میں درجن بھر رپورٹس موجود ہیں جو سب کہتی تھیں کہ اگلے چند سالوں میں ایل این جی کی قیمتیں کم ہوں گی۔ آپ نے معاہدہ کرکے ایل این جی کی قیمتیں لاک کردیں۔ یہ بات کسی بھی معاشی اصول کے تحت مناسب نہیں سمجھی جاسکتی۔ آج ہم اس کا نقصان بھگت رہے ہیں۔

ندیم بابر نے کہا کہ  سردیوں میں ایل این جی کی قیمت بڑھ جاتی ہے، گرمیوں میں کم ہوجاتی ہے، جب سے حکومت آئی ہے، ہماری اوسط تقریباً 20 فیصد کم آئی۔ 238 ملین ڈالر کا فرق پایا جاتا ہے۔ ایل این جی لانے میں قیمت کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ جب ڈیمانڈ نہ ہو تو زیادہ گیس لا کر اسے ہوا میں تو نہیں چھوڑ سکتے؟ ٹرمینلز پر ہمارے جو معاہدے ہیں انہیں ٹیک اور پے ایگریمنٹس کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر قانون کے تحت اجازت ہوتی کہ ہم ہر ایک کو اپنی مرضی سے سپلائی کرسکتے تو یہ ٹرمینل زیادہ چل سکتے تھے۔ رنگ فینسنگ کی وجہ سے یہ زیادہ نہیں چل سکتے۔ 5 لاکھ 27 ہزار ڈالر ہم نے روز ٹرمینلز کو دینے ہوتے ہیں۔ 9 ماہ میں ہمیں اضافی ایل این جی کی ضرورت نہیں تھی۔

بعد ازاں سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارا قطر سے معاہدہ بہت اچھا تھا جس سے ہمیں سستی گیس مل نہیں سکتی تھی، معاہدہ 15 سال کیلئے ضرور ہے لیکن اسے 10 سال بعد ترک کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو قطر سے معاہدے میں سالانہ 4 سو ملین ڈالرز کا فائدہ ہوا یعنی 200 ملین ڈالر سالانہ بچت ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس کے ذخائر تلاش کرنے کیلئے بھی ہم نے کوشش کی، پاکستان میں گیس کم مقدار میں نکلتی ہے، اس لیے ایسا نہ ہوسکا۔ جی آئی ڈی سی کے پیسے وفاقی حکومت کے پاس ہیں جو پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور ترکمانستان پائپ لائن کیلئے مختص تھے۔

اس کے ردِ عمل میں ندیم بابر نے کہا کہ سابق حکومت نے پاور پلانٹس ڈیزل کی بجائے ایل این جی پر منتقل کرکے اچھا اقدام اٹھایا۔ اگلے ماہ 1 ٹرمینل تعمیراتی کام شروع کرے گا، دوسرا بھی جلد تعمیراتی کام شروع کردے گا۔ ساری مارکیٹ کے مطابق ایل این جی کی قیمتیں کم ہونا تھیں، 10 سال کا معاہدہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔

ن لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کی گفتگو کا جواب دیتے ہوئے ندیم بابر نے کہا کہ سابقہ دورِ حکومت میں جی آئی ڈی سی کی مد میں 226 ارب جمع ہوئے، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ پیسے کہاں ہیں؟ 10 ماہ تک ٹرمینل کی پوری رقم ادا کرنے کے باوجود گیس کیوں نہ لائی گئی؟َ  اور پاور پلانٹس 7 کی بجائے اڑھائی برس ایل این جی پر چل سکے۔ 

یہ بھی پڑھیں: مہنگی ایل این جی کے باعث پیداوارمتاثر ہوگی، میاں زاہدحسین

Related Posts