کراچی :اہلسنّت کی تمام دینی تنظیمات، کراچی بھر کے اَئمہ وخطباء اہلسنّت ، مساجدِ اہلسنّت کے ذمے داران ، علمائے کرام ،مشایخِ عظام، تاجروں ،صنعت کاروں ، وکلاء ، پروفیسر صاحبان ، طلبہ اور معاشرے کے تمام طبقات کے اشتراک سے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کی زیرِ قیادت ’’تحفظِ ناموسِ رسالت وتحفظِ ناموسِ صحابہ واہلِ بیت‘‘ کے عنوان سے ہفتہ کو مزارِ قائد تا تبت سینٹر عظیم الشان تاریخ ساز ریلی کا انعقاد کیا گیا ۔
یہ کراچی کی سرزمین پر حقیقت میں ملین مارچ تھا، اس کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں سے نمازِ فجر کے بعد ریلیاں نکلیں اور دس بجے صبح مزارِ قائد پہنچیں، وہاں سے علماء وقائدین کے ہمراہ پیدل مارچ ہوا۔ تبت سینٹر پر بہت بڑا اسٹیج تیار کیا گیا تھا۔
لاہور ، اسلام آباد اور کراچی میں صحابۂ کرام کی برسرِ عام توہین کی گئی ، اس پر عوامِ اہلسنّت میں بے پناہ اشتعال تھا، لیکن علماء کی قیادت میں اور مفتی منیب الرحمن کی ہدایت پر لاکھوں عوام نے جذبات کو قابو میں رکھا، ریلی پر امن رہی ، خطابات پر امن ہوئے اور پرامن طریقے سے ریلی کے شرکاء واپس اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے۔
ریلی سے ممتاز علمائے کرام علامہ سید مظفر حسین شاہ ،علامہ سید شاہ عبدالحق قادری، صاحبزادہ ریحان امجد نعمانی ،علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی،مفتی عابد مبارک مدنی، مفتی محمد جان نعیمی ،مفتی رفیع الرحمن نورانی، مفتی تاج الدین نعیمی ، علامہ لیاقت حسین اظہری ،علامہ بلال سلیم قادری ، ثروت اعجاز قادری ،علامہ رضی حسینی ، حاجی محمد حنیف طیب و دیگر علمائے کرام اورتاجروں کے نمائندے حاجی رفیق سلیمان نے خطاب کیا۔
اس کے علاوہ مفتی محمد ابراہیم قادری ،علامہ سید عقیل انجم قادری، علامہ قاضی احمد نورانی، علامہ مفتی عبدالحلیم قادری، مفتی وسیم ضیائی، مفتی عمر فاروق قادری، سید عظمت علی شاہ ہمدانی، مخدوم سید محمد اشرف اشرفی، ڈاکٹر سید محمد علی شاہ ،علامہ جمیل راٹھور، علامہ تنزیل ،علامہ محمد ذیشان مدنی ،علامہ سلطان مدنی، علامہ آفتاب قادری، محمد سلیم عطاری، سید احتشام عادل ، ناصر رضوان ودیگر نے شرکت کی۔
مفتی منیب الرحمن نے اپنے کلیدی خطاب میں پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ڈیموگرافی کے کسی بھی معیار پر جانچ کیجیے ، یہ تاریخِ پاکستان کا حقیقی ملین مارچ ہے۔
صحابۂ کرام کی ناموس پر حملہ کر کے اہلسنّت کے جذبات کو مجروح کیا گیااور یہ ریلی ان جذبات کے اظہار کے لیے ،حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اور مجرموں کو قانون کی گرفت میں لے کر عبرت ناک سزا دینے کے مطالبے کے لیے منعقد کی گئی ہے۔
اس ریلی کے انعقاد کے لیے گزشتہ دو ہفتوں میں کراچی کے مختلف علاقوں میں تقریباًسو کے قریب تاریخ ساز اجتماعات منعقد ہوئے ۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا: ہماری تحریک کسی فرقے کے خلاف نہیں ہے ، مجرموں کے خلاف ہے ۔
میں ذمے دار شیعہ علماء اور اہلِ تشیُّع کے قائدین علامہ سید ریاض حسین نجفی ، علامہ سید ساجد علی نقوی اور شیخ محسن علی نجفی کے بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں ، انہوں نے اپنے دستخط شدہ بیان میں کہا ہے :’’شیعہ مراجعِ تقلید کی واضح ہدایت ہے کہ اسلام کے مسلّمہ مقدّسات کا احترام کیا جائے اور یہ کہ کسی بھی مکتبِ فکر کے مقدّسات کی توہین حرامِ قطعی ہے ‘‘۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، لیکن یہ پیغام نیچے کی سطح پر پہنچنا ضروری ہے۔
مفتی منیب الرحمن نے کہا بعض شیعہ علماء نے کہا: ’’ہم صحابہ کا احترام نہیں کرتے‘‘، احترام دل وجان سے ہوتا ہے اور کوئی بھی کسی کی خواہش یا فرمائش پر اپنے معتقدات کو ترک نہیں کرتااور ہم بھی کسی کو اس پر مجبور نہیں کرنا چاہتے ،لیکن ہم اپنے مقدّسات کی توہین کی اجازت نہیں دے سکتے، اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے مذہب میں اس کی گنجائش ہے ، توپھرمسلمانوں کے پاس ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، امریکا اور فرانس وغیرہ میں مقدّسات اسلام کی توہین اور رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف احتجاج کا جواز کیا رہ جائے گا، یہ جواب تو وہ بھی دے سکتے ہیں ۔
مفتی منیب الرحمٰن نے میڈیا کی جانبداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کیا پاکستانی میڈیا سنتھیا ڈی رچی کے لیے بناہے اور بھارتی اداکاراؤں کی برسیوں اور سالگرہ کی خبریں دینے کے لیے بنا ہے ، کیا یہاں کے مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان کے موقف کو بھی میڈیا بیان کرے اور قوم تک پہنچائے ، میڈیا کے وہ لوگ جو اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر ہمیں تحمل اور رواداری کا بھاشن دیتے ہیں۔
کیا انہیں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو پامال کرنے اور ان کی آواز کو روکنے کا آئینی، قانونی ،اخلاقی اور شرعی حق حاصل ہے ۔ایسے متعصبانہ رویوں سے انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ ریاست وحکومت بھی اگر انصاف سے کام نہیں لے گی تو پھر کوئی بھی انتہا پسند اس بکھرے ہجوم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
اہلسنّت اس ملک کی غالب اکثریت ہے ، وہ اپنے دینی اور مذہبی حقوق سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے ،خواہ اس کی قیمت کوئی بھی ادا کرنی پڑے۔ اگر کسی کو ہمارے دعوے پر شک ہے تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری کے فارم میں مسلک کا خانہ بنادیا جائے ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
انہوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی ، وزیرِ اعظم عمران خان ،چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم انصاف چاہتے ہیں اور وزیرِ اعظم اپنا وعدہ پورا کر کے دکھائیں ۔
ایک مجرم نے اسلام آباد میں بیٹھ کر خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق کی تکفیر کی اور اُسے بحفاظت انگلینڈ روانہ کردیا گیا، لوگوں کو شبہ ہے کہ حکومت کی کمین گاہوں میں اعلیٰ عہدوں پر ایسے افراد بیٹھے ہوئے ہیں جو ان گستاخوں کو شہ دیتے ہیں اور ان کی سرپرستی کرتے ہیں اور اس شبہے کا جواز موجود ہے۔
مفتی منیب الرحمن نے کہا ہم نے لاکھوں کی ریلی کو پرامن رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے ، ہم ان کے ترجمان ہیں اور انہیں ہم پر اعتماد ہے ،اس ریلی کے بعد ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ، مجرموں کو قانون کی گرفت میں لینے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس قسم کی ریلیوں کا انعقاد کریں گے ۔
انہوں نے کہاکہ اصل سول سوسائٹی یہ ہے ، جس کی مرضی ہو ، ایک ایک کر کے سب کو دیکھ لے اور سٹیلائٹ کیمروں سے چیک کرلے ، یہاں کراچی کے ہرطبقے کی نمائندگی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے۔
مزید پڑھیں:مسلمان شان صحابہ کی توہین،بے ادبی برداشت نہیں کر سکتا،راجہ محمد صادق