بلدیہ غربی کے اورنگی پروجیکٹ میں دو اداروں کی لڑائی، غریب شہریوں کے لیز گھر بھی مسمار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Mukhtiarkar demolish leased houses in orangi project

کراچی: ضلع غربی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں اراضی کی ملکیت پر دو ادارے آمنےسامنے آگئے، کے ایم سی کے اورنگی ٹاؤن پروجیکٹ کی ملکیتی اراضی پرمختیار کار نے حق جمالیا۔

2اداروں میں اختیارات کی جنگ میں قانونی رہائشیوں کا بھاری مالی نقصان ہو گیا، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی اراضی پر قائم کے ایم سی کے لیز شدہ مکانات بھی مختیار کار نے مسمار کردیے۔

اس حوالے سے پروجیکٹ ڈائریکٹر اورنگی ٹاؤن محمد رضوان خان نے ایم ایم نیوز ٹی وی کو بتایا کہ اورنگی ٹاؤن بلاک ”ڈی“ بلدیہ عظمیٰ کا ہے جسے مختیار کار قاضی نے غیر قانونی طور پر مسمار کیا،لیز شدہ مکانات بھی توڑ دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عجوہ سٹی اور کرسچن محلہ و دیگر جگہوں پر مختیار کار منگھو پیر نے آپریشن کیا، بلدیہ عظمیٰ کراچی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم نے اپنے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات گرائی ہیں ، عوام گلشن ضیاء میں کسی قسم کی خرید و فروخت نہ کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ کونسل قرارداد نمبر 566، 2009کے تحت جو علاقہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ہے اسکی تصدیق کرائیں۔ بلاک ڈی بلدیہ عظمیٰ کا ہے جسے مختیار کار قاضی نے غلط مسمار کیا۔ لیز شدہ مکانات بھی توڑ دیئے گئے۔

ہم نے فی الوقت آپریشن روک دیا ہے اور اب ہم بڑی تیاری کے ساتھ ایک اور وسیع آپریشن کریں گے جو عید کے بعد بھی ہو سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم رینجرز اور اعلیٰ پولیس حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سرکاری اراضی وگزار کرانے میں ادارے کی مدد کریں  اور آپریشن کے دوران انسداد تجاوزات کے عملے کو لینڈ مافیا کے پر تشدد حملوں اور فائرنگ کے وقعات سے تحفظ فراہم کریں۔

مزید پڑھیں:کے ڈی اے ملازمین کاعید سے قبل تنخواہ اور پنشن ادا کرنیکا مطالبہ

واضح رہے کہ مختیار کار کے اورنگی پروجیکٹ میں مداخلت اور بسے بسائے لیز مکانات منہدم کرنے سے درجنوں شہری بے گھر ہو گئے ہیں، آپریشن کے بعدعلاقہ مکینوں کی مختیار کار کو بد دعائیں، وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیر بلدیات اور سیکریٹری بلدیات سے فوری مداخلت اور دو اداروں میں اراضی کا تنازعہ جلد حل کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

Related Posts