ایک اور سنگین سنگِ میل عبور

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قوم نے کورونا وائرس کا  ایک اور سنگین سنگِ میل عبور کر لیا یعنی جو پاکستانی وائرس سے متاثر ہیں ان کی تعداد 1 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس کے ساتھ ساتھ یاد رکھنے کی ایک بات یہ ہے کہ مہلک کورونا وائرس جس نے ملک میں 2 ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا دیا، اس کی طرف سے مزید بری خبریں ملنا ابھی باقی ہے۔

پاکستان شعبۂ صحت کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہے جس میں مالی معاملات بھی مخدوش نظر آتے ہیں۔ وائرس نے پورے نظامِ صحت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ڈاکٹراور طبی عملہ جو کورونا وائرس کا علاج کرنے کے ذمہ دار ہیں، خود وائرس کا شکار ہو رہے ہیں اور ہم کتنے ہی طبیبوں اور طبی عملے کے اراکین سے محروم بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے بہترین اور دل دہلا دینے والی فیسوں کے ساتھ علاج کرنے والے ہسپتال بھی اپنی گنجائش سے زیادہ مریضوں کو آپریٹ کر رہے ہیں جہاں مزید مریضوں کی گنجائش نظر نہیں آتی۔

 وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ چند دنوں کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے خود یہ پیغام دیا کہ کورونا وائرس وطن کو درپیش ایک مشکل صورتحال ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید خرابی کی طرف جاسکتی ہے۔ جولائی کے وسط تک کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بے حد بڑھ چکی ہوگی کیونکہ وائرس اس وقت اپنے عروج پر ہوگا اور یہی وہ وقت ہوگا جب صاحبانِ اقتدار معاملے کی حقیقی سنگینی کا احساس کر پائیں۔ دنیا بھر کے کورونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ممالک میں آج کل پاکستان کا نام بھی لیا جارہا ہے کیونکہ یہاں ٹیسٹنگ کی کم گنجائش کے باعث ابھی تک کورونا وائرس کیسز کی حقیقی تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔

بدقسمتی سے کورونا وائرس کا علاج ہم اِس کے سوا کوئی اور تلاش نہیں کر سکے کہ عوامی مقامات پر ماسک پہنیں اور سماجی فاصلے کی پابندی کریں۔ بہت سے شہروں میں گاڑی چلانے والوں کو ماسک نہ پہننے پر جرمانے بھی کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں سماجی فاصلہ ناقابلِ عمل نظر آتا ہے اور اب ماسک پہننا ہی وائرس سے بچاؤ کی واحد صورت دکھائی دیتی ہے۔ حتیٰ کہ عالمی ادارۂ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی ماسک پہننے کا مشورہ دے دیا ہے تاکہ کورونا وائرس کا خطرہ کم از کم نصف حد تک کم کیاجاسکے۔

ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز پر وزیرِ اعظم  نے ایک جانب تو تشویش کا اظہار کیا تاہم انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم کسی دوسرے لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جاسکتے کیونکہ عمران خان کے مطابق قوم لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج کی متحمل نہیں ہوسکتی جبکہ روز کمانے والے افراد لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عوام کے پاس خود کو کورونا وائرس جیسی مہلک وباء سے محفوظ رکھنے کیلئے تمام حفاظتی اقدامات اپنانے کے سوا اب اور کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔

سماجی فاصلے کا خیال نہ رکھنے کے باعث  بہت سی ممتاز اور مشہورومعروف شخصیات جن میں اراکینِ پارلیمان بھی شامل ہیں، کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جب کہ ان میں سے کچھ تو وائرس کے باعث دُنیا سے رخصت بھی ہو گئے۔ کورونا وائرس پاکستان میں ہر خاص و عام کو متاثر کرتا نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی فراڈ یا جعلی وائرس نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ اِس بات کے قائل نہیں کہ وائرس سے انہیں کوئی خطرہ ہوسکتا ہے اور وہ اپنی معمول کی زندگی جی رہے ہیں جس میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے کوئی احتیاط شامل نہیں۔

وطنِ عزیز پاکستان کو بیک وقت دو خطرات کا سامنا ہے جن میں سے ایک تو یقیناً کورونا وائرس ہے جبکہ دوسری جہالت اور لاعلمی جبکہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ نہ صرف لڑی جاسکتی ہے بلکہ جیتی بھی جاسکتی ہے تاہم لاعلمی اور جہالت کے خلاف جنگ جیتنا نسبتاً مشکل ہے۔ ملک بھر میں جاری کورونا وائرس کے باعث اموات اور کیسز میں اضافہ وہ حقیقی عوامل ہیں جن کا زیادہ تر ذمہ دار ہم کسی اور کو نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اکثر افراد کا رویہ اور بے احتیاطی وائرس کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات قرار دی جاسکتی ہیں۔ 

Related Posts