پاکستان چین سے زیادہ کورونا کا شکار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وطنِ عزیز پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جہاں سے دراصل اِس عالمی وباء کا آغاز ہوا تھا جبکہ وائرس نے چینی شہر وہان سے اپنے مہلک سفر کا آغاز گزشتہ برس کے اواخر میں کیا تھا جہاں سے آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ آج پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 89 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ہمسایہ ملک چین میں  وائرس کے تقریباً 84 ہزار کیسز موجود ہیں۔

گزشتہ روز پاکستان نے وائرس کے کیسز میں ایک نیا سنگِ میل عبور کیا یعنی 4 ہزار 688 نئے کیسز رجسٹر ہوئے جو 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی ملک میں موجود سب سے زیادہ تعداد قرار دی گئی جبکہ پاکستان میں ریکارڈ کردہ یہ تعداد برازیل اور میکسیکو کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔

ہمسایہ ملک چین  نے 2 ماہ تک مسلسل سخت لاک ڈاؤن نافذ کیے رکھا جس کے باعث وہ کورونا وائرس جیسی عالمی وباء پر قابو پانے والا دُنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ اِس کے برعکس پاکستان نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کیں جس سے کورونا وائرس کیسز تیزی سے سامنے آنے لگے جبکہ ماہرینِ صحت مسلسل اس کی مخالفت کرتے نظر آئے جسے حکومت نے نظر انداز کیا۔

مملکتِ خداداد پاکستان میں زیادہ تر کیسز مقامی طور پر منتقل کردہ قرار دئیے گئے جو ممکنہ طور پر عید کی تعطیلات میں ہوا کیونکہ اِس دوران ہمارے ہم وطنوں نے سماجی فاصلے اور حفاظتی اقدامات مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دئیے۔ بہت سے شعبوں میں کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہوچکی ہیں جبکہ حکومت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید کاروباری سرگرمیوں اور صنعتوں کو کھولنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ حکومت ایس او پیز کا رونا روتی نظر آتی ہے تاہم عوام اور صنعتی و کاروباری حلقوں کی طرف سے اس پر کوئی عملدرآمد نظر نہیں آتا۔

ایسے حالات کے تحت حکومت غور کر رہی ہے کہ جو ادارے ایس او پیز یعنی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجر پر عملدرآمد میں ناکام ہیں، انہیں مکمل طور پر بند کردیا جائے جبکہ سماجی فاصلے اور حفاظتی اقدامات کے احکامات عوام کی اپنی حفاظت کیلئے دئیے گئے ہیں۔

حکومت نے بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کیسز کے پیشِ نظر خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو ایس او پیز پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گی جبکہ حکومت نے ایسے تمام عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے جو مارکیٹس، ٹرانسپورٹ اور دیگر کاروباری و معاشی سرگرمیوں کے دوران سماجی فاصلے اور دیگر حفاظتی اقدامات کی پابندی نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ اب بہت دیر ہو گئی ہو کیونکہ کورونا وائرس ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ ملک کا کوئی بھی شہر وائرس سے محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

آج پاکستان کورونا وائرس کیسز کے لحاظ سے دُنیا کے متاثر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جبکہ خاکم بدہن، صورتحال اس سے بھی خراب ہونے کے خاصے روشن امکانات نظر آتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کیں۔ گزشتہ روز کورونا وائرس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ صرف لاہور میں 5 لاکھ کے قریب کیسز موجود ہوسکتے ہیں جنہیں اب تک ٹیسٹ نہیں کیاجاسکا۔ کراچی میں بھی کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ جاری ہے جس کے نتائج پریشان کن ہیں۔

یہ تمام تر صورتحال جس کا کورونا وائرس کے باعث ہمیں سامنا ہے، اس کے دوران حکومت کی طرف سے ملا جلا ردِ عمل جو معیشت کی بحالی کی طرف زیادہ مرکوز دکھائی دیتا ہے، کافی حد تک حیرت انگیز ہے۔ ماہرینِ طب یہ کہہ چکے ہیں کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں 18 ماہ سے 4 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک وائرس کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے لیکن اس سے اہم اور پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت نے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جن کی عوام کی جانیں بچانے کے لیے شدید ضرورت تھی۔ 

Related Posts