اقراء یونیورسٹی کو کامیاب تعلیمی ادارہ بنانے والے حنید لاکھانی لوگوں کا مستقبل بہتر بنانے کیلئے پرعزم

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

The man behind Iqra University: Hunaid Lakhani on making futures brighter

تعلیم سے لے کر سیاست کے پر خار میدان تک اقراء یونیورسٹی کے بانی اور سابق چانسلر حنید لاکھانی نے ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا ہے جہاں ہر طبقہ کے نوجوان تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کرعملی زندگی میں کامیابی کی راہ اپنا سکیں۔
1997 میں لاس اینجلس کے امریکی کالج سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کے بعد حنید لاکھانی نے 2006 میں ہارورڈ بزنس اسکول میں اونرپریذیڈنٹ مینجمنٹ پروگرام میں شرکت کی۔ 1998 میں حنید لاکھانی نے اقراء یونیورسٹی کی قائم کی، جو ایک ایسا انسٹیٹیوٹ تھا جہاں ہر طبقہ کے طلبہ تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔حنید لاکھانی بیت المال سندھ کے سربراہ کی حیثیت سے سماجی بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ہم نے معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے ان کی زندگی کی کامیابیوں اور وژن سے متعلق بات چیت کی جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

ایم ایم نیوز: اقراء یونیورسٹی کے قیام کے دوران آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟۔

حنید لاکھانی : اقراء یونیورسٹی کے قیام کے لئے مجھے سب سے بڑی مشکل کا سامنا ریگولیٹری اداروں کی طرف سے کرنا پڑا، ان اداروں نے ایک ذہن بنارکھا ہے ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں ہمیں اعلیٰ تعلیم کے لئے نجی شعبے کی ضرورت نہیں ہے ، دوم انہوں نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے طریقہ کار اور شرائط طے نہیں کیں۔ چنانچہ مجھے نچلی سطح سے اقتدار کے ایوان تک جانا پڑا۔ محکمہ تعلیم ، محکمہ قانون ، گورنر ہاؤس ، اسمبلی اور آخر کار صدر پاکستان سے منظوری لی گئی اور پھر ایک بار پھر گورنر سندھ نے اس کی منظوری دی۔ اس پورے طریقہ کار میں تقریبا ڈھائی سال لگے۔ چنانچہ 1998 سے 2000 تک میں اقراء یونیورسٹی کی منظوری کیلئے بھاگ دوڑ کرتا رہا۔

ایم ایم نیوز: آپ نے اقراء کو پاکستان کی ٹاپ 10 یونیورسٹیوں میں سے ایک بنانے کا کارنامہ کیسے انجام دیا؟۔

حنید لاکھانی : یہ بہت آسان تھا، ہم نے بہترین انسانی وسائل ، بہترین وائس چانسلر ، بہترین سہولیات ، سب سے بڑی تعدادمیں پی ایچ ڈیز اور پھر بہترین انفراسٹرکچر کا انتظام کیا۔ہم نے تحقیق پر توجہ دی اور کسی بھی دوسری یونیورسٹی کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ مقالے شائع کیے کیونکہ علم کی تخلیق یونیورسٹی کا اصل کام ہے جس میں میرے خیال میں اقراء نے کسی بھی دوسری یونیورسٹی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ فیکلٹی ٹریننگ ، لیکچرز کی فراہمی ، سیکھنے کے نتائج کے علاوہ ہم نے ریگولیٹری اداروں کومطلوبہ سے بہتر نتائج دیئےاور ہم معیار برقرار رکھنے کیلئے تقاضوں کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: آپ نے اقراء کا نام کیوں منتخب کیا؟۔

حنید لاکھانی: میں نے سوچا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ یہ نام “اقراء” مل گیا۔ یہ ہماری مقدس کتاب کا پہلا لفظ ہے اور ‘ اقراء کا مطلب پڑھنا ہے تو میں نے سوچا کہ 50 اسلامی ممالک میں سے کسی ایک میں اس نام کی کچھ یونیورسٹیاں ضرور ہونگی لیکن خوش قسمتی سے یہ نام دستیاب تھااور مجھے یہ نام مل گیا۔

ایم ایم نیوز: اقراء یونیورسٹی کے چانسلر اور سیاستدان تک آپ نے اپنے کیریئر میں انتہائی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کیں، کیا آپ کو اسکی قیمت ادا کرنا پڑی؟۔

حنید لاکھانی: جی ہاں… میں نے پی ٹی آئی کا ممبر بننے کے لئے چانسلرشپ سے استعفیٰ دے دیا لہٰذا میں اقراء کا مزید حصہ نہیں ہوں۔ یہ میری یونیورسٹی ہے یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میرا بچہ ہے لیکن میں آج کل سماجی کاموں اور سیاسی کاموں میں زیادہ مصروف ہوں۔ یقیناً یہ قیمت ہے کہ ایک ماہر تعلیم کے طور پر ایک بہت ہی فائدہ مند کیریئر تھااورمیں خود کو ایک کامیاب انسان تصور کرتا تھالیکن سیاستدان ہونے کے ناطے کبھی کبھی آپ کو یہ مشکل کام محسوس ہوتا ہے۔ یہ آپ کی صحت کے علاوہ آپ کے خاندان اورآپکی زندگی کا مشکل کام بھی ہے اوردیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ زیادہ منظم ، زیادہ تجربہ کار ہیں جبکہ آپکی اپنی پارٹی میں لوگ ٹانگیں کھینچ رہے ہوں تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

ایم ایم نیوز: اکیڈمی اسکول کے بانی کی حیثیت سے ہمیں مستقبل میں کون سے نئے منصوبوں کی توقع کرنی چاہئے؟۔

حنید لاکھانی: اکیڈمی اسکول سسٹم ایک نیا منصوبہ ہے اور میں نے سوچا کہ اگر ہم اسے جلد ہی مونٹیسوری یا گریڈ ون کی سطح تک لے آئیں توبنیادکو مضبوط بنانا زیادہ آسان ہوگا۔ ہم اسے اپنی یونیورسٹی میں استعمال کرسکتے ہیں لیکن جہاں تک نئے منصوبوں کا تعلق ہے ، ہم آن لائن نظام کی طرف جا رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک سب پر بازی لے جائیں اوراس منصوب پرکام شروع کرچکے ہیں اور جب تک کہ ہم اسے حاصل نہیں کرلیں گے اس کام کو جاری رکھیں گے۔

ایم ایم نیوز: اگر آپ کو کسی فلم میں اداکاری کرنی ہوتی تو آپ کس کردار کا انتخاب کریں گے؟۔

حنید لاکھانی: ٹھیک ہے مجھے اداکاری میں دلچسپی نہیں ہے لیکن ‘میرے پاس تم ہو’ میں دانش ایک دلچسپ کردار تھااور مجھے لگتا ہے کہ اگر خلیل الرحمٰن قمر کا اسکرپٹ ہو تو میں اس پر بہتر انداز میں اداکاری کے جوہر دکھاسکتا ہوں۔

ایم ایم نیوز: پاکستان میں تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟۔

حنید لاکھانی: تعلیم کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں کے بچے بھی شہری علاقوں کے طلبا کے مقابلے میں یکساں طور پر تعلیم کی سہولیات ست آراستہ ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے پاس معیاری تعلیمی نظام اور معیاری مواد آن لائن دستیاب ہو۔ ہمیں زندگی کی بہت سی مہارتیں بھی حرکت میں لانی چاہئیںجو ان کی فلاح و بہبود کو بہتر بناسکیں۔ ان کی خیریت سب سے اہم چیز ہے۔ جب تک ہم ان کو روزی روٹی میں بہتری لانے کی مہارت نہ دیں ، ہم اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کر رہے ہیں۔ لہٰذا میں دیکھ رہا ہوں کہ تعلیم ان کو اپنی آمدنی ، ذریعہ معاش ، صحت ، ذراعت ، جانوروں اور ان کی زندگی کے طریقوں میں بہتری لانے کے لئے راہ فراہم کرتی ہے۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے بھی ایسا ہی کیریئر اپنائیں؟۔

حنید لاکھانی: نہیں ، میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی راہ خود تلاش کریں اور جس چیز میں ان کو دلچسپی ہو وہ کام کریں تو یہ ان کے لئے بہتر ہوگااورتب ہی وہ اپنی زندگی میں بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: تعلیم کس طرح آج کے نوجوانوں کو کل کے لیڈر بننے میں مدد کرسکتی ہے؟۔

حنید لاکھانی: یہ درست ہے کہ آپ کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے تعلیم بہت ضروری ہے لیکن آپ پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ اکثر اسکول یا تو آپ کو بیرون ملک رہنے کی تربیت دیتے ہیں یا وہ آپ کو بالکل بھی تربیت نہیں دیتے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ آپ توازن برقرار رکھیں اور انہیں زندگی کی مہارتوں کی تربیت دیں۔ اس طرح کی مہارتیں جونوجوانوں کی صحت اور ان کی مالی حیثیت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک کامیاب فرد بننے کے لئے آپ کو نہ صرف کیریئربہت ساری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ہم ایک عالمی گاؤں میں رہ رہے ہیں لہٰذا معاشی بہبود سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے لیکن جب آپ ان کو کارپوریٹ دنیا میں کامیاب شخص بننے کی مہارت سکھاتے ہیں، تو آپ انہیں خوش رہنے کی مہارت بھی سکھائیں ۔ کچھ مذہب ، کچھ معاشرتی کام ، کچھ مستقبل کی ٹیکنالوجی تاکہ وہ جدید دنیا ، ایپس کی دنیا ، بلاک چین کی دنیا ، مصنوعی ذہانت کی دنیا کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ ایک بالکل نیا صنعتی انقلاب ہے اور اس صنعتی انقلاب میں کامیابی کے لئے ان کے پاس تمام آلات موجود ہونے چاہئیں۔

ایم ایم نیوز: آپ نے ایک ایسا اسپتال بھی بنایا ہے جو مفت علاج مہیا کرتا ہے ، اس اقدام کی وجہ کیا ہے؟۔

حنید لاکھانی: یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ مجھے میڈیکل کے شعبے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا ، میں نے صرف اس کی شروعات اس وجہ سے کی تھی کہ میرے والد لندن اور امریکہ کے اسپتالوں میں رہے ،ہم انہیں واپس نہیں لاسکتے تھے لہٰذا یہ ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں ایک اچھا اسپتال قائم کریں جو ملک کا ایک بہترین اسپتال ہے اور صرف ایک صدقہ جاریہ ہے۔

Related Posts