سائنسدانوں نے قدیم ڈی این اے سے انسانی تاریخ کا ایک ایسا لاپتہ حصہ دریافت کر لیا ہے جس سے عدم دستیاب تاریخِ انسانی کے نت نئے پہلو معلوم کیے جاسکتے ہیں۔
قدیم ڈی این اے کی کھوج کی یہ معلوماتی تحقیق چین سے متعلق انسانی تاریخ کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ مشرقی ایشیاء سے دریافت ہونے والے جینومز پر محققین کی ٹیم نے سربراہ پروفیسر فوقیاؤمی کی قیادت میں تحقیق کا کام سرانجام دیا۔
چین کی اکیڈمی آف سائنسز سے تعلق رکھنے والے پروفیسر فوقیاؤمی کی قیادت میں تحقیقی ٹیم نے یہ معلوم کیا کہ مشرقی ایشیاء کی ابتدائی جینیاتی تاریخ میں آبادی کی تحریک نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ محققین نے ڈی این اے پر جدید تحقیقی طریقے استعمال کیے۔
مجموعی طور پر ڈی این اے کے 25 نمونوں پر کام کیا گیا جو آج سے تقریباً 4 ہزار سے ساڑھے 9 ہزار سال پرانے ہیں جن کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ مشرقی ایشیاء کی ابتدائی تاریخ شکار کے دور سے لے کر زرعی معیشت تک پھیلی ہوئی ہے۔
مطالعےسے پتہ چلتا ہے کہ مشرقی ایشیا میں آبادی کی تحریک میں دو تہیں موجود تھیں جن میں سے دوسری تہہ یعنی زراعت پیشہ انسانوں نے شکار کرنے والوں کا متبادل بن کر اپنا لوہا منوایا جبکہ مشرقی ایشیاء کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیاء، سائبیریا اور جاپانی تاریخ کا مطالعہ بھی جاری ہے۔
پروفیسر فو اور ان کی ٹیم کے مطابق آج کے مشرقی ایشیائی افراد زراعت پیشہ افراد کی دوسری تہہ سے تعلق رکھتے ہیں جو آج سے 9 ہزار 500 سال پرانی ہے جس سے انسانی تاریخ کے اہم گوشوں کا پتہ چلتا ہے جس پر مزید تحقیق کے دروازے کھل گئے ہیں۔