گھروں میں بجلی اور گیس کے بل پہنچنے لگے، لیکن راشن نہ پہنچا، حافظ نعیم الرحمن

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رمضان میں اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، حافظ نعیم الرحمن
رمضان میں اشیاء کی قیمتیں کنٹرول کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، حافظ نعیم الرحمن

کراچی:امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ سندھ حکومت نے آگرآج کراچی میں کاروبار اور مارکیٹیں کھولنے کا واضح اعلان نہ کیا تو جماعت اسلامی تاجروں کے ساتھ مل کر احتجاجی تحریک کا آغازکرے گی اور اس سلسلے میں پہلا مظاہرہ منگل5 مئی کوفائیو اسٹار چورنگی پر3بجے دن ہو گا۔

6مئی کو شہر بھر میں مارکیٹوں اور کاروباری مراکز میں تاجروں کی جانب سے احتجاج کیا جائے گا اور جمعرات 7مئی کو ادارہ نور حق میں 3بجے دن شہر کے تمام چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کا ”آل کراچی تاجر کنونشن“ ہو گا۔ مظاہرے اور کنونشن میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔  

جماعت اسلامی تاجروں کے ساتھ ہے اور ان کے کاروبار اور ان کو مزید تباہ و برباد نہیں ہو نے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جب گھروں میں بجلی اور گیس کے بل پہنچنے لگیں لیکن راشن نہ پہنچے تو غریب اور ضرورت مند کہاں جائیں؟

وفاقی و صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے لاک ڈاؤن اور کاروبار ی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک اعلان کرے۔ جماعت اسلامی تصادم نہیں چاہتی ہم مذاکرات سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو تمام سیاسی و جمہوری طریقے استعمال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور احتیاطی تدابیر سے عوام کو ضرور آگاہ کریں لیکن حکومت کے ترجمان بننے کے بجائے عوام کے ترجمان بنیں۔ لاک ڈاؤن کی صورتحال سے نمٹنے میں سندھ حکومت کی نا اہلی پر خاموشی اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں او ر پیرا میڈیکل اسٹاف کو حفاظتی سامان مہیا نہ کرنے پر حکومت کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہ کرنے پر ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم تقریر تو بہت اچھی کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات نہیں کرتے، وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں انہیں لاک ڈاؤن کے حوالے سے دوٹوک اعلان کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں کی جانب سے قابل عمل تجاویز دی جا چکی ہیں اور ایس او پیز پر بھی اتفاق رائے ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

آن لائن کاروبار صرف ایک مذاق ہے، کراچی اور سندھ سمیت آج پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے اور اس صورتحال نے ہر شہری اور طبقے زندگی کو پریشان کیا ہے لیکن مزدور و محنت کش اور تاجربرادری اس دوران شدید متاثر ہوئی ہے اور کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور معاشی حب ہے۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے 13فیصد صحیح لیکن معیشت کے اعتبار سے کراچی پورے ملک پرسب سے زیادہ  اثر انداز ہو تا ہے۔ کراچی میں سارا کاروبار بند ہے۔ شہر کی چھوٹی بڑی تقریباً 700مارکیٹیں مسلسل بند ہیں، جن سے وابستہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 70سے 80لاکھ افراد کاروبار کی بندش سے متاثر ہو رہے ہیں اور کاروبار تباہ اور ورکرز فاقوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف صنعتوں کو کھولنے کا اعلان تو کیا گیا مگر کراچی اور سندھ میں ساری صنعتیں بھی اس طرح نہیں کھل سکی ہیں جس طرح پنجاب میں کھل چکی ہیں۔

کاروباری طبقہ، تاجر برادری اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد بدترین حالات کا شکار ہو گئے اور لاک ڈاؤن کے باعث ایک سنگین اور خطر ناک صورتحال جنم لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ 10دن قبل ایک سائینٹیفک سروے جو ایک معروف ادارے پلس کنسلٹینٹ سے کرایاگیا تھا‘ کے مطابق 80فیصد لوگ کہتے ہیں کہ اگلے تین ماہ میں وہ انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہو جائیں گے۔

کراچی کے ایسے افراد کی تعداد 80فیصد ہے جو ان افراد کو جانتے ہیں جن کا روزگار اس لاک ڈاؤن سے ختم ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ حکومت کہہ رہی ہے اور اس پر زور دے رہی ہے کہ کورونا کی وباء کا شدید خدشہ ہے اس لیے سب کچھ بند کردیا جائے جبکہ اعداد و شمار، حقائق اور ماہرین بتاتے ہیں کہ اس وباء کے پھیلاؤ کا ایک فطری عمل ہے جو لاک ڈاؤن سے نہیں رک سکا ہے۔

اس کا ایک خاص گراف ہے جو اپنی انتہا کو پہنچ کر رہے گا۔ اس لیے یہ درست ہے کہ احتیاط کی جائیں اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کی جائیں، لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی و جماعتی مفادات، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی چپقلش، ضد اور ہٹ دھرمی سے بالا تر ہو کر موجود حالات بالخصوص کراچی کی صورتحال کو دیکھا جائے۔

Related Posts