شہری آئمہ مساجد کی تذلیل اور رسوائی کو برداشت نہیں کریں گے،علما ایکشن کمیٹی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 شہری آئمہ مساجد کی تذلیل اور رسوائی کو برداشت نہیں کریں گے،علما ایکشن کمیٹی
 شہری آئمہ مساجد کی تذلیل اور رسوائی کو برداشت نہیں کریں گے،علما ایکشن کمیٹی

کراچی:علماء ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں قاری محمد عثمان،مولانا اعجاز مصطفی،مولانا محمد طیب، ڈاکٹر قاسم محمود، قاری اللہ داد، حافظ حماد مدنی اور دیگر رہنماؤں نے طویل مشاورت کے بعدآئمہ مساجد کی گرفتاری اور ہتھکڑیاں لگا کر مجرموں کی طرح پیش کرنے کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے بچاؤکیلئے حکومت سندھ کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کیلئے تمام مکاتب کی طرف سے 12 رکنی کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔جہاں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوتا تو کمیٹی سے مدد لی جانی چاہیے مگر اسکے برعکس آئے روز مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کے موقف میں تضاد سامنے آرہاہے۔

دوسری طرف زبردستی لوگوں کو کرونا وائرس کے مریض بنانے کی رپورٹس بھی حقیقت بن کر عام ہورہی ہیں جو بہرحال سوالیہ نشان ہے۔ علمائے کرام نے کہا کہ صوبائی حکومت فوری طور پرآئمہ مساجد کے ساتھ روا رکھا جانے والا توہین آمیز رویہ بند کرکے تمام مکاتب فکر کی 12 رکنی کمیٹی سے رجوع کرے تاکہ اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پابندی کا اطلاق صرف مساجد پر کرنا عذاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ رمضان المبارک میں فرائض 70 گنا اور نوافل فرائض کے برابر ہوجاتے ہیں۔عوام کو مساجد سے روکنے کیلئے قوت نافذہ کی ضرورت ہے جوآئمہ مساجد کے اختیار میں نہیں ہے لہٰذا اسکا ذمہ دار مسجد کا امام قطعی طور پر نہیں ہوسکتا، یہ ریاست اور اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔

اگر انصاف نام کی کوئی چیز ہوتی تو پیر آباد اور لیاقت آباد سمیت کئی علاقوں کے ایس ایچ اوز جیل میں ہوتے۔ علماء کرام نے کہا کہ سندھ حکومت نے اگر نظریہ ضرورت کے تحت مستقبل قریب میں کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کی تو پھر یہ سارا دورانیہ مشکوک ہوکر رہ جائے گا۔

علماء کرام نے کہا کہ شہریآئمہ مساجد کی تذلیل اور رسوائی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت سندھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 رکنی کمیٹی سے رجوع کرتے ہوئے آدھا تیتر آدھا بٹیر کے بجائے پورے صوبہ سندھ میں سب کیلئے ایک ہی قانون بنائے۔

لاک ڈاؤن صرف مساجد کیلئے نہ ہو جہاں صرف 15 منٹ لوگ عبادت کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ باقی تمام بازاروں اور منڈیوں کا جو منظر پیش کیا جارہا ہے وہاں حکومتی رٹ کیوں خاموش ہے۔

Related Posts