امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نے یورپی خلائی ایجنسی کے ساتھ مل کر پلرز آف کرئیشین یعنی تخلیقی ستونوں کی نئی تصاویر جاری کی ہیں جو ماہرینِ فلکیات اور علمِ کونیات سے دلچسپی رکھنے والے شائقین کیلئے تحقیق کے نئے راستے کھول رہی ہیں۔
پلرز آف کرئیشین یا تخلیقی ستونوں سے مراد ماہرینِ فلکیات کے نزدیک دراصل وہ جگہ ہے جہاں کسی دور میں ستارے تخلیق ہوا کرتے تھے جس پر تحقیق درحقیقت اسرارِ کائنات اور خود عالمِ انسانیت کی تخلیق کے بے شمار سربستہ رازوں کو کھول کر انسان کے سامنے رکھ سکتی ہے۔
علمِ کونیات کے مطابق ستارے تخلیقی ستونوں میں آج سے طویل عرصہ پہلے بنا کرتے تھے، جس کے بعد پلرز آف کرئیشن ختم ہو گئے یا شاید ان کی جگہ تبدیل ہو گئی جبکہ یہ تخلیقی ستون زمین سے 6 ہزار سے 7 ہزار نوری سال کی دوری پر واقع تھے۔
یہ تخلیقی ستون اتنے بڑے تھے کہ ان کے ایک حصے سے لے کر دوسرے حصے تک کا فاصلہ کلومیٹرز میں بتانا ناممکن تھا، اس لیے اس فاصلے کو نوری سال میں بیان کیا جاتا ہے جبکہ بائیں طرف والا تخلیقی ستون 5 نوری سال طویل تھا۔
ہبل دور بین نے تخلیقی ستونوں کی ابتدائی تصاویر جاری کی تھیں جنہیں ہبل کی دس بہترین تصاویر میں شمار کیا جاتا تھا جبکہ تخلیقی ستون ہائیڈروجن اور گرد پر مشتمل تھے۔ ماہرینِ فلکیات کے مطابق یہی بادل اکٹھے ہو کر گیس کے گچھے بناتے ہیں جن سے ستارے بنتے ہیں۔