بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سینیارٹی لسٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے جونیئر شخص کو چیف فائر آفیسر تعینات کردیا گیا ہے جو محکمانہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
کراچی کی بلدیہ عظمیٰ میں ہیومن ریسورسز مینجمنٹ نے اقربا پروری اور کرپشن کی بد ترین مثال پیش کرتے ہوئے جونیئر آفیسر غلام فخر الدین کو فائر بریگیڈ کا چیف فائر آفیسر تعینات کرنے کا باضابطہ حکم نامہ جاری کردیا جبکہ میئر کراچی اور میونسپل کمشنر کی منظوری سے غیر قانونی تعیناتیاں جاری ہیں۔
سینیارٹی لسٹ میں اول نمبر پر آنے والے مبین احمدسرکاری لسٹ کے مطابق 7 اگست 1962 ء کو پیدا ہوئے اور محکمہ فائر بریگیڈ میں 4فروری 1992ء کو بھرتی ہوئے۔ مبین احمد کے بعد دوسرے نمبر پر اشتیاق احمد 11فروری1992ء میں بھرتی ہوئے۔
تیسرے نمبر پرسعید اللہ خان30مئی 1994ء میں کے ایم سی کے محکمہ فائربریگیڈ میں بھرتی ہوئے جبکہ چوتھے نمبر پر تحسین احمد صدیقی 28 مومبر 1997ء میں بھرتی ہوئے جو گزشتہ 3 سال کے لگ بھگ چیف فائر آفیسر بھی رہے۔
پانچویں نمبر پر مظہر رفیق ہیں جو 21نومبر 2002میں بھرتی ہوئے جبکہ نئے تعینات شدہ افسر غلام فخر الدین 26نومبر 2002کو بھرتی ہوئے تھے، محکمہ ہیومن ریسورسز نے حکم نامہ نمبر 1054 مورخہ10 اپریل 2020کو جاری کیا۔
جاری کردہ حکم نامے کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں غلام فخر الدین کو لُک آفٹر چارج کے نام پر تعینات کیا گیا ہے اور یہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمۂ ہیومن ریسورسز کی روایت ہے کہ لک آفٹر چارج کے نام پر تعینات افسران کو مسلسل اسی عہدے پر فائز رکھا جاتا ہے۔
محکمہ چارجڈ پارکنگ ، محکمہ اسٹیٹ، فنانس ، انجینئرنگ اور وہیکل سمیت اہم محکموں میں عموماََ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کو بھی میئر کراچی وسیم اختر اور مینسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان ننے تختہ مشق بنا رکھا ہے۔
سابق جعلی ڈگریوں کے حامل افسر تحسین صدیقی کی جعلی ڈگریاں ثابت ہونے کے باوجود انہیں2سال تک چیف فائر افسر کے حساس عہدے پر تعینات رکھا گیا۔ان سب کے پیچھے ایک دوہری شہریت کا حامل افسر مسعود عالم ہے جو اپنے من پسند اور چہیتے افسران کو تعینات کروانے میں مہارت رکھتا ہے۔
ذرائع کے مطابق مسعود عالم میئر اور ایم سی کو خوش رکھنے اور مال بنانے کا ہنر جانتا ہے۔غلام فخر الدین بھی اسی مسعود عالم کی فرمائش پر تعینات ہوا اور اس تعیناتی میں بھاری نذرانہ وصول کیا گیا ہے۔