اسلام آباد:فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے بیشتر رہائشی منصوبے ناقص پلاننگ کے باعث تعطل کا شکار ہیں جس کے باعث ہزاروں ممبران میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کے حاضر سروس ملازمین کی اکثریت عرصۂ دراز سے گھر بنانے کی منتظر ہے تاہم ہاؤسنگ اتھارٹی اپنے ملازمین اور عملے کی محدود استعداد کار اور پروفیشنلزکی کمی کے باعث پراجیکٹس کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ہاؤسنگ اتھارٹی جو پہلے فاؤنڈیشن تھی اپنے محدود مینڈیٹ اور قانونی حدود کے باعث آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر رہی جبکہ 2019 میں اتھارٹی بننے کے بعد اب افسران اور سی ای او کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو چکے ہیں۔
وسیع اختیارارت کے تحت اتھارٹی عملی اقدامات اٹھا سکتی تھی، تاہم لیکن نیا پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک ہاؤسنگ اتھارٹی کے غیر مؤثر فیصلوں اور ناقص پلاننگ کے باعث ممبران کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
پہلے سے شروع کردہ منصوبوں کو مکمل کرنے کی بجائے مختلف مرحلوں میں مزید دس بار سے زائد مرتبہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اربوں روپے ممبران سے اکٹھے کر چکی ہے لیکن عملی طور پر زمینی حقائق ہاؤسنگ اتھارٹی کی ناقص کارکردگی کا پول کھول رہے ہیں۔
بارہ کہو میں 2009 سے تین ہزار سے زائد ممبران پلاٹس کے حصول کے منتظر ہیں سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 میں زمینوں کےایکوائر اور قانونی حقوق لینے میں ہاؤسنگ اتھارٹی اپنے بااثر ممبر کے باعث سرکاری ملازمین کو حق دلوانے میں ناکام ہے
دوسری جانب ٹھلیاں میں بھی ہزاروں ممبران کا مستقبل ایک نااہل ٹھیکیدار کو سونپ دیا گیا ہے جو زمینوں کے حصول میں ناکام رہا اور پراجیکٹ لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی لینڈ بینک میں ناکافی زمین ہونے کے باعث ممبران کا مستقبل مخدوش ہے۔
زمینوں کی خریداری میں مسلسل ناکامی کے باعث ہاؤسنگ اتھارٹی نے کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور برائے نام کمپنیز کے ساتھ جوائنٹ وینچر کر رکھے ہیں اور نیا پاکستان کے انتہائی مہنگے فلیٹس کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے ہے کہ لینڈ ڈیکوریٹ مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز کی متنازعہ زمینوں پر پر جوائنٹ وینچر پراجیکٹس اتھارٹی کی کارکردگی کا پول کھول رہا ہے یہ سیکٹرز بھی شاید اس لیے مکمل ہوگئے کیونکہ ان سیکٹرز کی زمینوں کو سی ڈی اے نے ایکوائر کیا۔
سیکٹر جی 14 کے بیشتر حصے پر ممبران اب بھی پلاٹوں کے قبضے سے محروم ہیں۔ سیکٹرز میں پانی کی شدید قلت ہے جو گرمیوں میں مزید شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ڈویلپمنٹ کا معیار انتہائی ناقص ہے ۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار سست روی کا شکار ہے ۔