قیام پاکستان کے بعد 1973میں باوقائدہ آئین پاکستان کی تشکیل اور منظوری اس وقت کی پارلیمنٹ نے دی تھی ملکی اور قومی نظام اسی آئین کے دائرے میں چلایا جا رہا ہے ۔ ملکی، صوبائی اور شہری نظام میں آئین پاکستان کی رہنمائی حاصل کر کے ہی تشکیل دیا گیا ہے ، مگر جب آئین کی خلاف ورزی ہو اور حکومتی سطح پر اس کسی غیر آئینی اقدام کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر عدالتوں کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آئین کی خلاف ورزی پر حرکت میں آتی ہیں اور کسی بھی شہری کی شکایت پرعدالت آئینی شق کا جائزہ لے کر اس کی خلاف ورزی روکنے کے احکامات دیتی ہیں،اگر عدالتیں کسی بھی وجہ سے انصاف کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پھر نظام بگڑ جاتا ہے اور عوام کا اتحاد بکھر جاتا ہے ، اتحاد بکھر جائے تو امن تباہ ہونے کا شدید امکان ہوتا ہے۔
معاشرے میں عدل اور انصاف کا خون ہونے لگتا ہے ، پھر لا قانونیت عروج پر پہنچ جاتی ہے جس سے معاشی طور پر ریاست غیر مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ بس زرا سی لا پرواہی یا بد نیتی ریاست کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہے ،ایسی ہی صورتحال شہر قائد کے ساتھ پہلے بھی ہو چکی ہے جس کا نقصان 30سال تک پورے ملک کو برداشت کرنا پڑا تھا، 3 سال سے کراچی امن کا گہوارا بنا ہوا ہے ، مگر کراچی کے 3کروڑ شہری اپنے بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو سرکاری ملازمتوں میں آئینی حقوق کی پامالی گزشتہ 50 سال سے جاری ہے جسے شہر قائد کے باسی اپنے حقوق غصب کرنا تصور کرتے ہیں۔
نجی اور سرکاری اداروں میں ایک طرف ضلعی ڈومیسائل کی بنیاد پر آئین کے تحت ملازمت دینے کا رجحان ہی ختم ہو چکا ہے۔ آئین پا کستان اور سول سرونٹس رول میں لکھا ہے کہ گریڈ ایک تا گریڈ پندرہ کی بھرتیوں پر صرف اور صرف اُسی ضلع کے مقامی ڈومسائل ھولڈر لوگ بھرتی ھو سکتے ہیں مگر کراچی میں آج تک یہ قانون اُلٹا لاگو کیا گیا یہاں پرچیف منسٹر ہاؤس، سندہ سیکریٹریٹ نمبر 1-2-3-4 – سندھ سیکرٹیریٹ سے جڑے تمام ڈپارٹمنٹ میں 1 سے 15 گریڈ کے 99فیصد لوگ غیر مقامی بھرتی کئے یہی حال17 سے 21 گریڈ کے افسران کا ہے 99 فیصد غیر مقامی ہیں -ہائیکورٹ ،سٹی کورٹ ، دیگر ڈسٹرک کورٹ میں 80 فیصدی ملازم غیر مقامی بھرتی کئے ہیں جبکہ جج 95 فیصد غیر مقامی ہیں ،کے ایم سی کراچی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر بورڈ ،کے ڈی اے ، کراچی کی 6 ڈی ایم سیز میں 20تا 30فیصد ملازم و افسران غیر مقامی بھرتی کئے جا چکے ہیں۔
محکمہ ہیلتھ سمیت تمام کراچی کے ہسپتالوں میں 1 سے 17 گریڈ پر 85 فیصد غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیا، نجی ادارہ کراچی الیکٹرک80 فیصد غیر مقامی ایسے محکمے جن کے نام میں کراچی آتاہے کے ایم سی، کے الیکٹرک ، کراچی پولیس لائن ،اُس سمیت سارے کراچی میں واقع سارے صوبائی اور وفاقی دفاتر سوئی گیس ، کسٹم، نادرا، ایف آئی اے ، پاسپورٹ سمیت دیگر تماماداروں کا یہی حال ہے ۔ ادارہ فراہمی و نکاسی آب ، پراپرٹی ٹیکس ، موٹر وہیکل ٹیکس کراچی، کراچی کے دیگر اداروں کا انچارج لاڑکانہ، نواب شاہ، خیر پور، سکھر،سہون، ٹھٹھہ ،بدین ،شکار پور، اور دیگر اضلع کا رہائشی ہے ۔کراچی کا کچرا اٹھانے والے ڈپارٹمنٹ سالڈ ویسٹ بورڈ کراچی آفس میں 90 فیصد ملازم پنجاب، کے پی کے ، افغانی اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع کے ہیں۔
ان تمام محکمہ جات میں غیر مقامی ملازموں کی تعلیم میٹرک انٹر اور گریجویشن انجینئرنگ میڈیکل وغیرہ سب میں پی آر سی ڈومسائل انکے اپنے مقامی ضلعوں اور تحصیلوں کے ہیں ۔یعنی تعلیم اپنے علاقائی ڈومسائل سے کی ہے ۔ پھر یہ کراچی میں ملازمت کیسے کر رہے ہیں۔ کیا اپنے ضلع اور تحصیل کے ڈومیسائل پر کراچی میں ملازمت کر رہے ہیں؟ ۔
اگر ان کے پاس کراچی کا ڈومیسائل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے بھاری نذرانوں کے عوض انہیں کراچی کے اضلع کا ڈومیسائل بنا کر دیا ہے ، جو کہ قانوناََ جرم ہے اور اگر ریاست کی نیت ٹھیک ہے تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں ہو رہیں۔
حکومتوں کی جانب سے غیر آئینی اقدامات بھی نظر آرہے ہیں، انہیں میں سے حال ہی میں مختلف محکموں میں کراچی کے دفاتر سے اندرون سندھ کے مختلف اضلع سے ملازمین کے تبادلے کیے گئے اور کراچی کی خالی ہونے والی آسامیوں کو پر کر دیا گیا ، جبکہ کراچی میں تبادلہ ہوکر آنے والے ملازمین کی جگہ نئی بھرتیوں کے لیے آسامیاں خالی ہے کا اشتہار دینے کی تیاریاں کر لی گئیں ۔
جب ضلع کے مستقل رہائشیوں کا حق چھین لیا جائے گا تو کراچی کے شہری کہاں جائیں گے ، یہ ہی نکتہ آغاز ہے احساس محرومی کا، اسی سے نفرت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ پھر کوئی تحریک اسی نکتہ آغاز کے ساتھ اٹھتی ہے ، اور ایسی تحریکیں جلدی کامیابی حاصل کرنے لگتی ہیں کیوں کہ حقوق سے محروم ہر شہری اس کا جلدی حصہ بننے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔
احساس محرومی سے جنم لینے والی ایسی تحریکیں کسی صورت بھی ملکی مفاد میں نہیں ہوتیں۔ مگر حقوق سے محروم شہریوں کے پاس ایسی تحریکوں کا حصہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
ملکی سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ماورائے آئین ہونے والے اقدامات کو رکنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں اور کسی کے بھی آئینی حقوق پامال نہ ہونے دیے جائیں۔ اسی میں اس ملک کی ترقی ہے ۔