کورونا وائرس: ملک گیر لاک ڈاؤن اور عوام الناس کا غیر سنجیدہ رویہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس: ملک گیر لاک ڈاؤن اور عوام الناس کا غیر سنجیدہ رویہ
کورونا وائرس: ملک گیر لاک ڈاؤن اور عوام الناس کا غیر سنجیدہ رویہ

کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے جس کا سامنا سب سے پہلے چین کو ہوا۔ چین سے نکلنے کے بعد یہ بیماری آہستہ آہستہ دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلتی چلی گئی اور آج یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا نام لے لیجئے،کورونا وائرس وہاں موجود ہے۔

یہ ایک انتہائی سنجیدہ صورتحال ہے جسے دیکھتے ہوئے صوبائی حکومتوں نے اپنی اپنی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تاہم اس کے دوران عوام الناس کا غیر سنجیدہ رویہ دیکھنے میں آرہا ہے جو کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں۔

لاک ڈاؤن اور شہریوں کی سنجیدگی 

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر کیے گئے لاک ڈاؤن کے فیصلے کو شہریوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا نہ ہی کورونا وائرس کو عوام سنجیدگی سے لینے پر راضی دکھائی دیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوسرے روز بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے کہ عوام بلاجواز گھروں سے نکل آئے۔ لوگ محض تفریح کے لیے گھروں سے نکل کر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

ایسے لوگ دراصل سندھ حکومت کو دعوت دے رہے ہیں کہ ہم سنجیدہ نہیں ہیں۔ آپ کرفیو لگا دیں۔ کورونا وائرس کے شکار شخص کے حوالے سے عوام عموماً لاعلم ہیں۔ عام طور پر لوگ کھانسنے والوں یا بخار میں مبتلا لوگوں سے دور بھاگتے ہیں ، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ کورونا وائرس کا شکار ہونے والا شخص بظاہر 15دن تک صحتمند دکھائی دیتا ہے۔

ماہرین طب کے مطابق وہ شخص اس کے باوجودکورونا وائرس دوسروں میں منتقل کرتا چلا جاتا ہے۔ اس غیر محسوس انداز میں بڑی تعداد کورونا کا شکار ہوتی جاتی ہے ، یہ وائرس ہوا میں اڑ کر نہیں پھیل رہا بلکہ کھانسنے والے کورونا کے مریضوں اور ایسے مریض یا لوگ جو کورونا کا شکار ہو چکے ہوں ان کے ہاتھوں کے چھونے گلے ملنے یا قریب سے باتیں کرنے سے بھی ایک دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔

حکومت نے ایسے ہی پھیلاو کو روکنے کے لیے شہر شہر لاک ڈاون کردیا تھا مگر شہریوںنے اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے باعث حکومت کو مذید سخت اقدام اور ” کرفیو” کے نفاذ پر غور کرنا پڑ رہا ہے۔

اٹلی کی مثال 

لوگوں کو یہ  اندازہ نہیں کہ کرفیو میں کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے قبل دنیا کے دیگر ممالک کی مثال سامنے رکھئے۔ جن حکومتوں نے کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہین لیا اور اقدامات اٹھانے میں غیر ضروری حربے استعمال کیے  ۔جب انہوں نے تاخیر سے اقدامات کیے تو انکی عوام نے اس پر عمل نہیں کیا۔ سب سے پہلے اٹلی کی مثال اہم  ہے۔

اٹلی کی حکومت نے اپنے ترقی یافتہ ہونے کے زعم میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور جب پانی سر سے اوپر ہونے لگا تو اٹلی کی حکومت نے لاک ڈاؤن کا حکم جاری کردیا  مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ اٹلی کے عوام نے اس لاک ڈاؤن کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس طرح آج پاکستان کے عوام غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

غیر سنجیدگی کا انجام 

چند افراد کی غیر سنجیدگی کا خمیازہ عوام اور خود اٹلی کی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج اٹلی میں یومیہ 400کی اوسط سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں کورونا بہت تیزی سے شہریوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اٹلی میں 63 ہزار 927 افراد وائرس میں مبتلا ہیں۔ ایک اور یورپی ملک فرانس ہے جس نے بہت تاخیر سے لاک ڈاؤن کیا۔

جن لوگوں میں کورونا وائرس منتقل ہو چکا تھا ، لاک ڈاؤن کے دوران جب تک ان میں اثرات ظاہر ہوئے تب تک ان کے اہل خانہ میں کورونا وائرس منتقل ہو چکا تھا۔ اس طرح کورونا وارس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب فرانس میں بھی اس وائرس کے شکار افراد میں ہلاک ہونے والوں کی اوسط یومیہ تعداد 200تک جا پہنچی ہے۔

تیسرا ملک اسپین ہے جہاں تاخیر سے لاک ڈاؤن کا نتیجہ بھی منفی ظاہر ہو رہا ہے۔ ایران بھی انہیں ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس وائرس کے اپنے ملک میں مزید پھیلنے کا انتظار کیا اور پھر وائرس ان کے قابو سے باہر ہو گیا۔

وائرس کا علاج 

وائرس تیزی سے پھیلنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی اب تک نہ کوئی باقاعدہ ویکسین ایجاد نہیں ہوسکی، نہ ہی کوئی مؤثر علاج سامنے آیا ہے۔اس وائرس کا شکار مریض کورونا سے مسلسل جنگ کرتا رہتا ہے۔ اگر وہ جوان اور صحت مند شخص  ہے تو کورونا سے لڑتے لڑتے اسے شکست دے دیتا ہے اور کورونا اس کے جسم ( پھیپھڑوں) میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔

اس کے برعکس اگر کمزور جسم یا صحت کا حامل شخص اس سے نبرد آزما ہوتا ہے تو پھر کورونا اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ یہ ساری تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں شعور اجاگر ہو سکے کہ کورونا وائرس جان لیوا مہلک وائرس ہے جو ذرا سی بے احتیاطی کے سبب پھیل رہا ہے۔ ہمیں صرف احتیاط ہی اس دشمن سے بچا سکتی ہے، مگر عوام ہیں کہ سنجیدہ ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں۔کیا ہم کرفیو کے بغیر گھر میں نہیں بیٹھ سکتے؟

کورونا وائرس اور کرفیو 

کرفیو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ 90ء کی دھائی کرفیو کا نفاذ ہوا جبکہ  1990 ، 1992،1994 میں انتہائی سخت قسم کا کرفیو لگا یا گیا تھا، جبکہ 5 جولائی2003ء کو بھی مذہبی دہشت گردی کے بعد کرفیو کا نفاذ کیا گیا۔

1992کا کرفیو سب سے سخت کرفیو گردانا جاتا ہے جس میں کسی کو باہر جھانکنے پر بھی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔فوج نے پورے شہر کا کنٹرول سنبھال رکھا تھا اور کسی کو گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔لاک ڈاؤن میں شہریوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ گھروں سے انتہائی ضرورت کے تحت باہر جا کر اشیائے  خوردو نوش اور ادویات لے سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ پیٹرول پمپس کھلے ہوئے ہیں، پنکچر کی دوکانیں کھلی ہیں مگر کرفیو میں سب کچھ بند کردیا جاتا ہے۔ ہر قسم کا کاروبار ، چاہے وہ دودھ کی دکان ہو یا میڈیکل اسٹور، سب بند ہوتا ہے اور کسی کو گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے آپ کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ہم خود لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر کے یا غیر ضروری طور پر گھروں سے نکل کر حکومتی اقدامات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

ایسے میں عوام کے تحفظ اور انہیں کورونا سے بچانے کے لیے کرفیو کا نفاذ ناگزیر ہو تا جا رہا ہے اور حکومت نے اس پر سوچنا اور مشورے کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب اگر حکومت ایسا سخت فیصلہ کرتی ہے تو یہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کا مؤثر اقدام ہوگا جو عوام کے لیے بہت سخت ہو سکتا ہے مگر یہ  ان کی جان اور صحت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ 

Related Posts