سیدمراد علی شاہ نے 2016 میں وزیر اعلی سندھ بننے کے بعدایک ’’ ایجوکیشن ایمرجنسی ‘‘کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جو پورے صوبے میں عوام کی ناقص تعلیمی حالت کے پیش نظر ایک قابلِ تحسین فیصلہ تھا۔
دوسری جانب سندھ میں پیپلز پارٹی کے حکمرانی کے 12 سال اور ’ایجوکیشن ایمرجنسی‘ کے اعلان کے 4 سال بعد بنیادی سطح پر عوامی تعلیم کا معیار قابلِ رحم ہے اور سندھ باقی پاکستان سے پیچھے رہ گیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ’ایجوکیشن ایمرجنسی‘ پلان سندھ کے والدین اور بچوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔
سندھ میں تعلیم پر پچھلے 6 سالوں میں 800 ارب اخراجات کے باوجودنتائج مایوس کن ہیں۔ ASER 2019 کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جب کلاس 2 کی سطح پر اُردو ، سندھی یا پشتو پڑھنے کی بات آتی ہے تو سندھ میں کلاس پنجم کے صرف 44٪ طلبا ہی اس کو پورا کرسکتے ہیں۔
اس زمرے میں سندھ دیگرصوبوں سے سب سے نیچے تھا جہاں بلوچستان اور کے پی کے بالترتیب بالترتیب 48٪ اور 55٪ کی سطح پر اعلیٰ درجہ حاصل کررہے ہیں۔مزید یہ کہ جب کلاس 5 کے 5 فیصد طلباء کی بات ہو جو کلاس 2 کی سطح پر انگریزی میں جملے پڑھ سکتے ہیں تو صرف سندھ میں 27٪ فیصدہی یہ کام کرسکے۔ ایک بار پھر یہ ملک میں بدترین مثال ہے اور بلوچستان اور کے پی کے نے اس سے زیادہ اسکور کیا۔
ASER 2019 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں کلاس 5 کے صرف 31 فیصد طلبا کلاس 3 کی سطح کی 2 ہندسوں کی تقسیم کرسکتے ہیں جبکہ بلوچستان میں 35٪ ، کے پی کے میں 53٪ اور پنجاب میں 82٪فیصد شرح ہے۔
الف اعلان نے اپنی سندھ ایجوکیشن رپورٹ 2018 میں سیکھنے کے انہی نتائج کی بھی اطلاع دی ہے۔حالیہ امتحانات سے پائے جانے والے نتائج نے ایک پریشان کن صورتحال کو بے نقاب کیا ہے۔ صوبہ بھر کے طلبا میں سیکھنے کے نتائج کم ہیں۔ ریاضی اور سائنس کے اوسط اسکور 5 5 (کلاس V) اور گریڈ 8 (کلاس VIII) دونوں سطحوں پر 50 سے کم ہیں۔ ریاضی اور سائنس میں اسکور خاص طور پر ناقص ہیں (دونوں درجہ کی سطح پر 30٪ سے کم)۔
سندھ کے لئے سیکھنے کے یہ نتائج اس قدر پریشان کن کیوں ہیں؟ ہمیں بطور سندھ کے رہائشی اور ٹیکس دہندگان یہ پوچھنا ہوگا کہ پیسہ کہاں جارہا ہے؟ہم نتائج میں خاص طور پر ایسے صوبے میں جہاں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے وہاں تعلیم میں یہ بتدریج کمی کیوں آرہی ہے؟ کیا یہ جاگیرداری کی وجہ سے ہے یا لوگوں کی ذہنیت بدل گئی ہے اور کیوں انہیں تعلیم کے حصول میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا؟
سیکھنے کے نتائج میں سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کا معیار بھی مایوس کن ہے۔ صوبہ میں تعلیمی بحران سے نمٹنے کے لئے سندھ میں کی جانے والی اصلاحات اسکولوں میں اساتذہ کی عدم موجودگی کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ محکمہ سندھ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی نے 2018 میں غیر حاضر اساتذہ اور عملے کی طویل فہرست جاری کی۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کے لئے ضروری پیشہ ورانہ قابلیت بھی نہیں ہے۔وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے اعتراف کیا کہ اس وقت اساتذہ کی 37000 اسامیاں خالی ہیں اور صوبے بھر میں 49ہزارمیں سے 13ہزارسرکاری اسکول بند کردیئے گئے ہیں۔
مہذب سہولیات اور اسکولوں کی کمی بھی سیکھنے کے ناقص نتائج کا ایک سبب ہوسکتی ہے۔ آدھے سے زیادہ اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ ان میں سے 75٪ میں کھیل کا میدان نہیں اور 98٪ اسکولوں میں لیبارٹری کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔
ہم کب تک ان حالات کو برداشت کریں گے؟ سندھ کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ اس بات کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن قائم کریں کہ ہمیں نتائج کیوں نہیں مل ر ہے اورگذشتہ 10 سالوں سے محکمہ تعلیم کے تمام اخراجات کا فرانزک آڈٹ کروانے کے لئے ایک آزاد آڈٹ فرم کا تقرر بھی کیاجائے۔