اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1-1
اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟
zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیر دفاع خواجہ آصف کے بعد حکومتی کارندے تواتر کے ساتھ اسرائیل اور معاہدہ ابراہیمی کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں، جس سے ان کے ذہنوں میں چھپا خناس واضح ہوتا جا رہا ہے جبکہ میڈیا کے دجالی نمائندے بھی ایک عرصے سے ناجائز صہیونی ریاست سے تعلقات کے فوائد و ثمرات بیان کرکے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سے معیشت مستحکم ہو جائے گی، سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ امریکہ اور یہودی لابی کی مدد سے معیشت سنبھل جائے گی، آئی ایم ایف نرم ہو جائے گا اور سرمایہ آئے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
آیئے اخلاقی جواز، شرعی پہلو اور غیرت و حمیت کے نکتہ نظر سے ہٹ کر اسرائیل سے تعلقات کو خالص مادی فوائد کے آئینے میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ اخلاق و دین اور غیرت و حمیت جیسی چیزیں ویسے بھی حکمراں طبقے کی لغت میں مفقود ہیں۔ کیا واقعی اسرائیل کو تسلیم کرنے سے دودھ و شہد کی نہریں بہننے لگ جائیں گی؟ کیا واقعی معاشی انقلاب برپا ہوگا؟ اور معیشت مستحکم ہوجائے گی؟ قرضے بیک جنبش قلم ختم ہوجائیں گے؟ تو اس کے لیے ہمیں کسی معاشی ماہر کی جمع تفریق کے پیمانوں یا کسی عمیق ریسرچ کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ان مسلم ممالک کی مثالیں موجود ہیں، جنہیں یہ سبز باغ دکھا کر دجالی ریاست کے چرنوں میں گرایا گیا۔ ان میں سے کس کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟ یہ اتنی واضح حقیقت ہے کہ اندھا بھی دیکھ سکتا ہے۔
ترکی: اسرائیل کو تسلیم کرنے والا مسلم ملک:
ترکی (نیا نام ترکیہ) نے 1949ء میں (یعنی ناجائز ریاست کے قیام کے ایک سال بعد) ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم ملک تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس کے اسرائیل سے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے۔ لیکن اسرائیل سے سفارتی، تجارتی اور دفاعی روابط نے کئی پہلوؤں سے ترکی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان 2023ء میں باہمی تجارت 9 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی، جس کا زیادہ فائدہ اسرائیل کو ملا۔ ترکی کی زرعی اور صنعتی مصنوعات اسرائیلی مارکیٹ میں تو داخل ہوئیں، مگر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور اسلحہ ترکی کی معیشت پر حاوی ہونے لگا۔ اسرائیلی کمپنی Elbit Systems نے ترکی کے UAV سسٹمز، سرولینس اور سائبر ٹیکنالوجی میں کئی خفیہ سودے کیے۔ ترکی کے اندرونی حلقے، بالخصوص دینی طبقے (سعادت پارٹی، آئی ایچ ایچ تنظیم وغیرہ)، اسرائیل سے تعلقات پر شدید ناراض ہیں۔ جس کے باعث موجودہ حکومت کو بارہا دوغلا پن سے کام لینا پڑا، ایک طرف اسرائیل کو “ظالم اور دہشت گرد ریاست” قرار دیا، لیکن دوسری طرف وہ سفارتی، تجارتی اور عسکری تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور ہوئی۔ 2010ء میں غزہ جانے والے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے میں 9 ترک شہری شہید ہوئے۔ ترکی نے شدید احتجاج کیا، مگر آخرکار اسرائیل سے دوبارہ تعلقات بحال کر لیے اور شہداء کے لیے صرف معذرت اور معمولی معاوضے پر اکتفا کیا۔ اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر ترکی کی اسرائیل پالیسی کو “غیرت فروشی” سے تعبیر کیا گیا۔
تاہم ترک اسرائیل تعلقات کا سب سے عبرت ناک پہلو ایف-35 طیاروں کا معاملہ ہے۔ باوجود نیٹو رکنیت اور معاہدہ ہونے کے اسرائیل نے یہ طیارے ترکی کو دینے میں رکاوٹ ڈال دی۔ حالانکہ ترکی 2002ء سے ان طیاروں کے بنانے میں شریک ہے۔ اس نے اس منصوبے میں 1.4 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کی۔ ترکی نے 100 عدد F-35 طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا، جن کی پیداوار میں ترک کمپنیاں پرزے بھی فراہم کر رہی تھیں۔ ترکی نے 2017 میں روس سے S-400 دفاعی میزائل نظام خریدا۔ امریکہ نے اسے بنیاد بنا کر کہا S-400 اور F-35 اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو قائل کیا کہ S-400 سے F-35 کے راز لیک ہو سکتے ہیں، خاص طور پر چونکہ ترکی ایک مسلم ملک ہے اور اسرائیل کو اس پر مکمل اعتماد نہیں۔ اسرائیل کے کہنے پر 2019 میں امریکہ نے ترکی کو F-35 پروگرام سے باہر نکال دیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ امریکہ نے ترکی سے 100 میں سے 30 طیاروں کی پوری قیمت ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر وصول بھی کی تھی۔ اس پر بھی اکتفا نہیں کیا، بلکہ ترک کمپنیوں کو بھی پروگرام سے نکال دیا گیا، جنہیں سالانہ کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ بھارت نے بھی روس سے S-400 خریدا، مگر اسے F-35 تو نہیں مگر دیگر اسلحہ کی کھلی اجازت ہے۔ اسرائیل نے اپنے دوسرے خلیجی دوست ملک متحدہ عرب امارات کو بھی ایف-35 دلانے نہیں دیا۔ 2020 میں ابوظہبی نے “ابراہام معاہدے” کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کے فوراً بعد امارات نے امریکہ سے 50 عدد F-35 لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا، جس کی مالیت تقریباً 23 ارب ڈالر تھی۔ مگر اسرائیل نے اس معاہدے کی کھل کر مخالفت کی اور امریکہ پر دباؤ ڈالا کہ یہ ڈیل اسرائیل کی “Qualitative Military Edge” (QME) کے خلاف ہے۔ امریکہ نے دباؤ میں آ کر F-35 کی ترسیل موخر کر دی۔ یہاں تک کہ بائیڈن انتظامیہ نے 2021 میں دوبارہ معاہدے پر نظرثانی کا اعلان کیا۔ یعنی UAE نے اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا، پھر بھی اسے جدید اسلحہ نہ مل سکا، کیوں؟ اس لیے کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ کوئی عرب ریاست بھی دفاعی لحاظ سے اس کے قریب آ سکے۔ بہرحال اب اردگان امید لگائے بیٹھے ہیں کہ رواں برس یہ طیارے ترکی کو مل جائیں گے۔ لیکن اس امید کا بر آنا بہت مشکل ہے۔ اگر ترکی جیسا طاقتور ملک، جس نے F-35 منصوبے کی بنیادوں میں پیسہ، ٹیکنالوجی اور حصہ ڈالا، اسرائیل کی مرضی کے بغیر طیارے نہیں لے سکا تو پاکستان محض اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے کیا واقعی کچھ حاصل کر لے گا؟
اب تو اسرائیل ترکی کو سرعام اپنا اگلا ہدف قرار دے رہا ہے۔ شام میں ترکی کے تعاون سے سقوط بشار کے بعد اسرائیلی حکام ببانگ دہل ترکی کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے تھنک ٹینک ترکی کو شکست دینے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل میں قدامت پسند صہیونی لابی اور سیکولر تھنک ٹینکس، دونوں ہی اردوان کو “خلافت کا خواب دیکھنے والا” قرار دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے قریب میں کسی خلافت کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اسرائیلی تھنک ٹینک “Begin–Sadat Center” نے رپورٹ دی ہے کہ ترکی اب ایران سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ فلسطینی جہاد کو نظریاتی جواز فراہم کرتا ہے۔ غزہ پر مسلط نسل کشی کی اسرائیلی جنگ کے دوران اردوان نے اسرائیل کو “دہشت گرد ریاست”، “نئی نازی حکومت”، “فلسطینی نسل کشی کا مجرم” قرار دیا، اور کئی بار جنگی زبان استعمال کی۔ ترکی نے اسرائیل سے سفیر واپس بلایا اور اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگی جرائم پر اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ اس کے بعد اسرائیل نے بارہا کہا ہے کہ ترکی قطر کے بعد حماس کا سب سے بڑا سیاسی و مالی پشتیبان ہے۔ حماس کے کئی رہنما ترکی میں رہائش پذیر ہیں، جنہیں اسرائیل براہِ راست “دہشت گرد” کہتا ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس موساد نے ترکی میں حماس کے کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی خفیہ کوششیں بھی کیں۔ حال ہی میں اسرائیل نے قبرص، یونان اور کردستان عراق میں مشترکہ مشقیں کیں، جنہیں ماہرین نے ترکی کے خلاف صف بندی قرار دیا۔ موساد نے PKK (کرد علیحدگی پسند تنظیم) سے بھی خفیہ روابط مضبوط کیے، تاکہ ترکی کے مشرقی حصے میں شورش پیدا کی جا سکے۔ اسرائیل کی سائبر ایجنسی “یونٹ 8200” ترکی کے دفاعی و مالیاتی پر حملے کی کوشش کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیل نیٹو میں لابنگ کر کے ترکی کو “غیر مستحکم ریاست” کے طور پر پیش کرتا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب ہوگیا تو ترکی کو یورپی امداد، نیٹو انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جس پہلے مسلم نے اسرائیل کو تسلیم کیا، آج اسرائیل اُسی کے خلاف دفاعی اتحاد بنا رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات، دیرپا امن کی ضمانت نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ بلیک میلنگ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات ایک وقتی فائدہ ضرور دے سکتے ہیں، مگر یہ دشمنی میں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ترکی کی موجودہ پوزیشن ان تمام مسلم ممالک کے لیے سبق ہے جو اسرائیل کو تسلیم کر کے امن یا ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
مصر: کیمپ ڈیوڈ کے بدلے غلامی:
اب آتے ہیں دوسرے مسلم کی طرف، جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ وہ مصر ہے۔ اس نے 1979 میں امریکی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ “کمپ ڈیویڈ معاہدہ” کیا اور باضابطہ طور پر اسے تسلیم کیا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اسے عرب دنیا میں “صلح کے بدلے سزا” کی مثال قراردیا جاتا ہے۔ مصر کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد زبردست مادی، عسکری، اقتصادی اور علاقائی نقصانات اٹھانا پڑے، جن کی فہرست طویل اور ثبوتوں سے بھرپور ہے۔ مختصراً یہ کہ مصر کی عسکری خودمختاری چھن گئی۔ کمپ ڈیویڈ معاہدے کے تحت مصر کو سینا کا صحرا واپس ملا، مگر بڑی قیمت پر۔ مصر سینا میں مکمل فوج تعینات نہیں کر سکتا۔ صرف محدود سیکورٹی فورسز رکھنے کی اجازت ہے، جو اسرائیل کے ساتھ کوآرڈی نیٹ ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ مصر کو آج بھی سینا کے مشرقی علاقے میں دہشت گردی روکنے کے لیے اسرائیل سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ یوں مصر کی سرزمین تو ملی، مگر خودمختاری گئی، جس پر اب بھی اسرائیلی اثر باقی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کر دی۔ قاہرہ سے عرب لیگ کا ہیڈکوارٹر باہر منتقل کر دیا گیا۔ تقریباً تمام عرب ریاستوں نے مصر سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے۔ مصر جو عرب دنیا کا قائد سمجھا جاتا تھا، تنہا رہ گیا۔ ان تعلقات کے آفٹر شاکس اب تک جاری ہیں۔ مصرمعاشی امداد کے باوجود خود انحصاری سے محروم ہے۔ اسرائیل سے امن کے عوض امریکہ نے سالانہ 1.3 ارب ڈالر فوجی امداد دینی شروع کی۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا مصر نے اپنا دفاعی اور معاشی نظام امریکی امداد پر چھوڑ دیا، ملک کی دفاعی صنعت سکڑ گئی، کوئی اسٹرٹیجک خود انحصاری نہ بن سکی۔ امریکی امداد سے نہ معاشی خوشحالی آئی، نہ دفاعی خود کفالت، بلکہ مصر کو ایک “امداد خور ریاست” بنا دیا گیا۔ 1997 میں لکسور سیاحتی قتل عام میں 62 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں مبینہ طور پر مصر کے اندرونی شدت پسند گروہوں کو اسرائیل اور مغربی ایجنسیوں کے خلاف بیانیے میں استعمال کیا گیا۔ سیاحتی معیشت پر تب سے بار بار ضربیں لگتی رہیں۔ مصر کو غزہ کی ناکہ بندی میں اسرائیل کا ساتھ دینا پڑ رہا ہے۔ اس نے رفح بارڈر کو بار بار بند کیا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی رسائی روک دی۔ اس پالیسی نے مصر کو فلسطینیوں میں غدار بنایا۔ عالمی سطح پر اس کی اسلامی حمایت کی ساکھ ختم ہوگئی۔ امریکہ ہر سال 1.3 بلین ڈالر فوجی امداد اس شرط دیتا ہے کہ وہ اسلحہ زیادہ تر امریکی ہو، پالیسی اسرائیلی مفادات سے متصادم نہ ہو، 2013 میں جنرل سیسی نے اخوان المسلمون کی حکومت گرا کر اقتدار سنبھالا، جس پر اسرائیل نے کھل کر خوشی کا اظہار کیا۔ یوں مصر کی فوج اپنی خودمختاری کھو کر امریکہ و اسرائیل کی پالیسی کا آلہ کار بن گئی ہے۔ معیشت سنبھلنا تو دور کی بات ہے، اب مصر مکمل طور پر آئی ایم ایف کا محتاج ہے۔ مصر آج بھی آئی ایم ایف کی غلامی میں ہے اور غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس امید سے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا کہ “امن اور ترقی” ملے گی، لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی: معاشی غلامی، غربت، اور عوامی ذلت۔ اقوام متحدہ کے مطابق 35 فیصد مصری غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 50 فیصد تک۔ کروڑوں شہری روزانہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ 2024 میں عمومی مہنگائی 36 فیصد سے زائد تھی۔ اب مزید بڑھ چکی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 60-70 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ کرنسی کی قدر تباہ ہوچکی۔ اب ایک ڈالر 50 مصری پاؤنڈ کے مساوی۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 20–25 فیصد تک۔ لاکھوں افراد غیر قانونی ہجرت، جرائم یا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے خود کشی عام ہوچکی ہے۔ وجہ IMF کے قرضوں کی شرائط پر سبسڈی کا خاتمہ، نجکاری اور کرنسی کی گراوٹ، فوجی کرپشن اور ریاستی اداروں پر قبضہ۔ بیرونی قرضہ 165 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا مصر کے لیے ترقی نہیں، تباہی، بربادی اور قرضوں کی غلامی کا آغاز تھا، آج مصر غزہ کی مدد بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور اسرائیل کی اجازت کا محتاج ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب مصر نے اپنے اثاثے، جزیرے، بندرگاہیں اور انفرا اسٹرکچر تک سعودی عرب، امارات، چین اور امریکہ کو فروخت کر دیئے ہیں۔
اردن: وادی اردن معاہدہ اور گرتی خودمختاری:
تیسرا مسلم ملک اردن (Jordan) ہے، جس نے 1994 ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہی کہ اردن کی خودمختاری ختم ہوگئی۔ اکتوبر 1994 میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ “وادی عرابہ امن معاہدہ” پر دستخط کیے۔ مقصد امن، معیشت کی بہتری اور فلسطینیوں کے لیے ثالثی۔ لیکن نتیجتاً نہ امن، نہ معاشی فائدہ، نہ قومی وقار، صرف اسرائیلی دباؤ میں اضافہ۔ اسرائیل سے دوستی کے بعد اردن نے فلسطینی کاز پر قومی مؤقف نرم کیا۔ غرب اردن (West Bank) پر اردن کا تاریخی دعویٰ دفن کر دیا گیا۔ القدس (بیت المقدس) میں اسرائیلی اقدامات پر اردن صرف “تشویش” ظاہر کرتا ہے، عملی قدم نہیں اٹھاسکتا۔ حالانکہ مسجد اقصیٰ قانونی طور پر اسی کی تولیت میں ہے۔ اردن کی خارجہ پالیسی پر امریکہ اور اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ انہی کی مرضی سے سفارتی فیصلے ہوتے ہیں۔2021 کے بعد اسرائیلی قیادت نے بارہا اردنی حکومت کو براہِ راست دھمکیاں دیں۔ اردن کو اسرائیل سے امن کے بدلے معاشی مدد کے وعدے کیے گئے تھے، لیکن آج اردن پر 55 ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضہ ہے۔ معیشت IMF اور World Bank کی سخت شرائط کے تابع ہے۔ عوامی سبسڈیز کم، مہنگائی بلند، نوجوانوں میں بے روزگاری عام۔ اسرائیل نے اردن کو خوشحال نہیں کیا، صرف قرضوں میں جکڑا ہے۔ جبکہ اردن میں صہیونی لابی کا اثر بڑھ گیا ہے، میڈیا، تعلیمی نصاب اور مذہبی بیانیے میں تبدیلی کی کوششیں جاری ہیں۔ اسرائیلی سیاحوں کے ذریعے ثقافتی یلغار جاری ہے۔ اب تو اسرائیلی پارلیمنٹ کے بعض ارکان اردن کو “یہودی وطن کا حصہ” قرار دیتے ہیں۔ اردن کے عوام کی بڑی اکثریت اسرائیل کو اب بھی دشمن سمجھتی ہے۔ ہر سال دارالحکومت عَمان میں اسرائیلی سفارت خانے کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ حکومت پر عوامی اعتماد میں شدید کمی ہوگئی ہے۔ اردن کی معیشت آج بھی امداد پر ہے اور بے روزگاری 22فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
امارات: تعلقات کا بدلہ، نگرانی کا شکنجہ:
اس فہرست میں چوتھا ملک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ہے۔ یہ پہلا خلیجی ملک ہے، جس نے 2020ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے ساتھ کیے گئے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر فلسطینی عوام نے اسے “خنجر بر پشتِ قدس” قرار دیا۔ حتیٰ کہ اسرائیل نواز فلسطینی تنظیم الفتح نے بھی۔ معاہدے کے وقت امریکہ نے F-35 جیسے جدید ترین طیارے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اسرائیل نے اس پر شدید مخالفت کی اور امریکی کانگریس پر دباؤ ڈال کر یہ سودا غیر معینہ مدت تک ملتوی کروا دیا۔ یوں UAE عسکری لحاظ سے نہ صرف خالی ہاتھ رہا بلکہ اسرائیل کے رحم و کرم پر بھی آ گیا۔ حالیہ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیل نے اپنی زیرِ جنگ معیشت کو سنبھالنے کے لیے خفیہ طور پر امارات سے سرمایہ کاری، فنڈنگ اور بعض کاروباری شعبوں میں نقد امداد کی درخواست کی ہے اور بعض اماراتی شخصیات نے دل کھول کر اسرائیل کو امداد دی بھی ہے۔ یاد رہے کہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیلی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، جب کہ ملکی بجٹ کا خسارہ ریکارڈ حد تک پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل اب معاشی طور پر UAE جیسے ملکوں پر انحصار کرنا چاہتا ہے، جو اسے تسلیم کرنے کی “قیمت” چکا رہے ہیں۔ امارات میں درجنوں اسرائیلی کمپنیاں سائبر سیکورٹی، زراعت، ہتھیاروں اور مالیات کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ خاص طور پر پیگاسس جیسے نگرانی سسٹمز کی موجودگی سے شہری آزادی پر سوال اٹھے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں صہیونی مؤرخین کی کتب کی شمولیت کی اطلاعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر “التطبيع خيانة” ٹرینڈ مستقل جاری ہے۔ یو اے ای کی سرکاری دفاعی کمپنی Edge Group نے جنوری 2025 میں اسرائیلی دفاعی ٹیک کمپنی Thirdeye Systems کے 30 فیصد شیئر خریدے، جن کی مالیت 10 ملین ڈالر بتائی گئی۔2023 ء میں UAE نے اسرائیل کے Tamar گیس فیلڈ میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جس میں انہیں 22فیصد حصص حاصل ہوئے۔ عبداللہ سعید جمعہ النہیان ایک نمایاں اماراتی تاجر ہے، اس نے اسرائیلی وینچر کیپٹل OurCrowd کے ساتھ 100 ملین ڈالر کا فنڈ قائم کیا۔ ان معاہدوں اور سرمایہ کاریوں کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ شراکت داری بظاہر دوطرفہ دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو اور نقصان امارات کو ہو رہا ہے۔ مثلاً اماراتی سرمایہ کاری سے اسرائیلی معیشت کو براہِ راست تقویت ملی۔ خاص کرTamar گیس فیلڈ جیسے منصوبے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں، جبکہ امارات صرف سرمایہ لگا رہا ہے، فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں۔ Edge Group نے جو سرمایہ اسرائیل میں لگایا، اس کا زیادہ تر فائدہ اسرائیلی R&D اور مینوفیکچرنگ کو ہوا، اماراتی معیشت یا ٹیکنالوجی کو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ اسرائیل کے ساتھ اتحاد نے امارات کو ایک ایسے تنازع میں دھکیل دیا ہے، جس کے مستقبل میں سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ جب بین الاقوامی عدالتیں اسرائیل پر پابندیاں یا مقدمات چلائیں گی تو امارات بھی شریک جرم قرار پا سکتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ قربت نے عوامی اور علاقائی سطح پر امارات کو ممکنہ حملوں یا دہشت گردی کے خطرات میں مبتلا کیا ہے، خاص طور پر ایسے گروہوں کی طرف سے جو اسرائیل کو قابض اور دشمن سمجھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ متحدہ عرب امارات نے جس اسرائیل کو تسلیم کر کے ترقی اور امن کی امید باندھی، آج وہی اسرائیل مالی مدد مانگ کر اسے بوجھ میں بدل چکا ہے۔”
مراکش: مغربی صحارا کا سودا، اندرونی عدم اعتماد:
امارات کے ساتھ دسمبر 2020 میں مراکش نے بھی ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، جس کے بدلے میں امریکہ نے مغربی صحارا میں مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا، یہ علاقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تنازع کا شکار تھا۔ ایک اور عرب ریاست کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صہیونی ریاست کی عالمی قبولیت میں اضافہ کیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس شعبوں میں تعاون نے اسرائیلی دفاعی نظام کو مضبوط کیا۔ اسرائیلی کمپنیوں کو مراکش میں معاشی سرمایہ کاری اور مارکیٹ تک رسائی ملی۔ مراکش کو تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ دو سال قبل وہاں تباہ کن زلزلہ آیا۔ مگر اسرائیل نے ایک پائی کی بھی مدد نہیں کی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسرائیل مراکش کے ترشاوا پھلوں کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ وہ مراکش کا یہ پھل لے جا کر مہنگے داموں امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کو فروخت کرتا ہے۔ یہودی تہوار میں ترنج کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ ایک دانہ سات ہزار ڈالر تک کا بک جاتا ہے۔ مراکشی عوام نے اس فیصلے کو فلسطین سے غداری قرار دیا، جس کی وجہ سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی۔ اسرائیل کے ساتھ تعاون نے مراکش کو الجزائر اور دیگر مسلم ممالک سے دور کر دیا، جہاں فلسطینی حمایت شدید ہے۔ اس لیے اب بھی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں کہ صہیونی ریاست سے تعلقات ختم کیے جائیں۔
بحرین: عوامی مزاحمت اور خفیہ تحفظ:
پھر 15 ستمبر 2020 کو بحرین نے بھی “ابراہام معاہدے” کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور اس اقدام کو خطے میں امن کی علامت قرار دیا گیا۔ مگر اس فیصلے کے سیاسی، سماجی اور سفارتی اثرات آج تک بحرین میں بحث کا موضوع ہیں۔ بحرین جیسے عرب ملک سے تعلق سے اسرائیل کی علاقائی تنہائی کم ہوگئی۔ اسرائیلی کمپنیاں بحرین میں ٹیکنالوجی، سائبر سیکورٹی اور دفاعی شعبوں میں سرگرم ہو گئیں۔ اسرائیل اسلحہ بیچنے کے لیے ایک نئی مارکیٹ مل گئی۔ بحرین میں فلسطین کے حامی شہریوں نے اس معاہدے کو “قومی اصولوں سے انحراف” قرار دیا اور کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے۔ اسرائیل کو بحرین کی بندرگاہوں، فضائی حدود اور معاشی مواقع کا فائدہ پہنچا، جبکہ بحرین کو نہ کوئی خاص سرمایہ کاری ملی نہ سیکورٹی میں اضافہ ہوا۔ بحرین کا یہ فیصلہ اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی فتح ثابت ہوا، مگر خود بحرین کے لیے عوامی مخالفت، تنقید اور محدود معاشی فائدے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ حالیہ جنگ کے دوران بحرینی حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا رہا کہ وہ تعلقات ختم کرے، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
سوڈان کو خانہ جنگی کا تحفہ:
اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والے سوڈان کا حال تو سب کے سامنے ہے۔ اس نے 6 جنوری 2021ء کو امریکی ثالثی میں ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ بدلے میں اگرچہ صدر ٹرمپ نے سوڈان کو “اسٹیٹ اسپانسرز آف ٹیررزم” کی فہرست سے نکال دیا۔ لیکن اس کے بعد ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ جس کی آگ اب بھی بھڑک رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ سوڈانی حکومت کے خلاف برسرپیکار رپییڈ فورسز کی پشت پناہی اسرائیل کر رہا ہے۔ سوڈان پر جو پابندیاں ہٹائی گئی تھیں، وہ بھی دوبارہ لگ چکی ہیں۔ سوڈان کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے بعد جو سیاسی، سماجی اور معاشی نقصانات اٹھانے پڑے، وہ نہ صرف اس کی داخلی خودمختاری کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ عوامی سطح پر شدید ردِعمل اور بین الاقوامی سطح پر الجھنوں کا باعث بنے ہیں۔ بلکہ اس کے وجود کو ہی خطرات لاحق ہوگئے۔ امریکا نے قرضے معاف کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ بلکہ الٹا سوڈان سے ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکا نے سوڈان پر الزام لگایا کہ اس نے القاعدہ کو پناہ دی، جو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر بم دھماکوں میں ملوث تھی۔ ان حملوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ لہٰذا سوڈان 335 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے تاکہ بم دھماکوں کے متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ چنانچہ افریقہ کے اس غریب ملک نے 335 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کیا، مگر بدلے میں نہ کوئی نمایاں معاشی فائدہ ملا، نہ عالمی برادری کی مکمل حمایت اور نہ ہی سوڈان کے داخلی حالات بہتر ہوئے۔
اسرائیل نے صرف سفارتی سطح پر ایک اور عرب ملک کو تسلیم کروا کر سیاسی فائدہ اٹھایا، جب کہ سوڈان نے سیاسی مخالفت، عوامی غصہ اور مالی نقصان مول لیا۔ “اسرائیل کا فائدہ، سوڈان کا خسارہ” یہی ابراہام معاہدے کا نچوڑ تھا۔
اور اب پاکستان؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ترکی، مصر، اردن، امارات، بحرین، مراکش جیسے ممالک، جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں، نہ خود مختاری حاصل کر سکے، نہ دفاعی خود کفالت، نہ معاشی خوشحالی، تو پاکستان کو کیا ملے گا؟ پاکستان کو جو کچھ ملے گا، وہ وہی ہوگا جو باقیوں کو ملا، وقتی جھوٹے وعدے، قرض کے چکر، خودمختاری کا نقصان، نظریاتی اساس کی پامالی، عوامی اشتعال، مذہبی انتشار، اندرونی خلفشار اور طویل مدتی بلیک میلنگ۔ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، تو وہ کشمیر پر اپنے مؤقف کو ہمیشہ کے لیے دفن کرے گا۔ کیونکہ اسرائیل کے ساتھ دوستی، بھارت سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی جواز دے گی۔ نیز پاکستان کی ایٹمی صلاحیت صہیونی دنیا کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اسرائیل پاکستان کو ایٹمی قوت کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ وہ پاکستان میں لسانی، مسلکی، فرقہ وارانہ اور سیاسی انتشار کو ہوا دے کر اُسے اندر سے کھوکھلا کرے گا۔ ان تعلقات کے جو “بے شمار فوائد” ہمارے حکمران طبقے، لبرل تھنک ٹینک اور مغربی غلام میڈیا گنواتے ہیں، وہ سب یا تو مفروضے ہیں، یا وقتی دھوکے اور محض سراب۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات صرف مادی نہیں، نظریاتی، اخلاقی، عسکری، علاقائی اور قومی خودمختاری کا سودا ہیں۔ یہ وہ سودا ہے جس کی قیمت نسلیں چکاتی ہیں۔ اگر ہم نے دباؤ میں آ کر جھکنے کا فیصلہ کر لیا تو فلسطین ہی نہیں، ہم خود بھی صفحۂ تاریخ پر اپنا نظریاتی وجود کھو بیٹھیں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا صرف سفارتی اقدام نہیں، یہ ایک نظریاتی خودکشی ہے۔ بلاشبہ اسرائیل سائبر، ایرو اسپیس اور زرعی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتا ہے۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس نے کسی مسلم ملک کو حساس دفاعی ٹیکنالوجی نہیں دی، بلکہ اپنی مصنوعات بیچ کر ان پر انحصار پیدا کیا۔ UAE کو سپائے ویئر دے کر اس کی خودمختاری خطرے میں ڈالی، قطر کی ہیکنگ کی۔ اسرائیلی سائبر کمپنیاں موساد سے جڑی ہوئی ہیں، جو ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ اس کی ٹیکنالوجی کا حصول دراصل ڈیجیٹل غلامی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

Related Posts