پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

دوسرا اور آخری حصہ:

اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران ہاکابی نے میڈیا پر کھل کر مطالبہ کیا کہ امریکا کو فوری اور براہِ راست مداخلت کرنی چاہیے۔ کچھ ذرائع کے مطابق انہوں نے صدر کو “ایٹمی آپشن” تک استعمال کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ایران کو “روحانی سطح پر” روکا جا سکے۔

اس سلسلے میں انہوں نے صدر ٹرمپ کو ایک ایسے مذہبی رنگ میں ڈوبا ہوا خط بھی لکھا جس میں ہاکابی نے ٹرمپ کے موجودہ فیصلے کو صدر ہیری ٹرومین کے اُس تاریخی لمحے سے تشبیہ دی جب 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے گئے تھے۔ ہاکابی نے لکھا: “خدا نے آپ کو بٹلر، پنسلوینیا میں بچایا تاکہ آپ اس صدی کے سب سے اہم صدر بنیں، بلکہ شاید تاریخ کے۔” وہ مزید لکھتے ہیں: “میری زندگی میں کوئی صدر ایسے لمحے میں نہیں آیا جیسا لمحہ آج آپ کو درپیش ہے، سوائے ٹرومین کے 1945 میں۔”
جہاں تک غزہ کا تعلق ہے، ہاکابی نے ایک مشروط انسانی امدادی منصوبے کی حمایت کی، جس کا مقصد غزہ میں حقیقی انسانی ریلیف سے زیادہ اسرائیل اور امریکا کے مفادات کو تقویت دینا تھا۔ ان کی ترجیح “انسانی ہمدردی” سے زیادہ جیوپولیٹیکل اثر و رسوخ کا حصول معلوم ہوتی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ہاکابی کی سوچ محض سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی حمایت کوئی اسٹرٹیجک فیصلہ نہیں بلکہ توراتی فریضہ ہے۔ ان کے عقائد مشرق وسطیٰ کو ایک “روحانی جنگ” کا میدان بناتے ہیں، جس میں ہر پالیسی فیصلہ، ہر سفارتی اقدام، اور ہر فوجی مداخلت کسی نہ کسی خدائی پیش گوئی کی تکمیل سمجھا جاتا ہے۔
راسل فوغت… مسیحی قوم پرستی کا بیوروکریٹک چہرہ
فروری 2025 میں جب راسل فوغت کو باضابطہ طور پر “دفترِ نظم و بجٹ” (Office of Management and Budget) کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا، تو ٹرمپ انتظامیہ کے مذہبی قوم پرست دھڑے نے اس فیصلے کو اپنے نظریاتی ایجنڈے کی فتح قرار دیا۔ راسل فوغت نہ صرف ایک ماہرِ انتظامیہ ہیں، بلکہ وہ امریکہ میں “مسیحی قوم پرستی” کے ایک بلند آہنگ داعی بھی ہیں۔ وہ خود کو “عیسوی وطن پرستی کا منادی” کہتے ہیں اور ان کا مشن ہے کہ مسیحی اصولوں کو امریکی طرزِ حکمرانی اور معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔ یہ کوئی نعرہ نہیں بلکہ ایک منظم نظریہ ہے جو امریکہ میں مذہب اور ریاست کے درمیان تاریخی فاصلے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک امریکہ محض ایک جمہوری ریاست نہیں بلکہ “خدا کی مرضی کا مظہر” ہے، جس میں ہر قانون، ہر پالیسی اور ہر قومی فیصلہ ایک دینی رنگ لیے ہوئے ہونا چاہیے۔
سنہ 2017 میں جب انہیں سینیٹ کے سامنے پیش کیا گیا، تو سینیٹر برنی سینڈرز نے ان سے ایک نہایت اہم سوال پوچھا: کیا یہ کہنا کہ “مسلمان خدا کو نہیں پہچانتے کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قبول نہیں کیا” مذہبی تعصب کی علامت نہیں؟ فوغت نے اس سوال کو “اسلاموفوبیا” سے تعبیر کرنے سے انکار کیا اور اسے ایک مسیحی عقیدے کا اظہار قرار دیا۔
اسلام کے ساتھ فوغت کی یہ کشیدہ فکری نسبت محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ انہوں نے ایک امریکی عیسائی خاتون پروفیسر لاریسیا ہاکنز کے خلاف کھل کر مہم چلائی، جنہوں نے کہا تھا کہ “مسلمان اور عیسائی ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں”۔ فوغت نے ان کے اس بیان کو “عیسائی عقیدے سے متصادم” قرار دیا اور اسے ادیان کے مابین نام نہاد رواداری کی “گمراہ کن تبلیغ” کہا۔
ماہرین فوغت کے خیالات کو “خدا کے ماتحت ریاست” کے نظریے کا تسلسل قرار دیتے ہیں، جس میں اسلام کو محض نجی عقیدہ نہیں بلکہ ایک “سیاسی خطرہ” سمجھا جاتا ہے اور جس کی موجودگی کو عوامی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دینا قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے، خواہ آئینی طور پر مذہب اور ریاست الگ ہی کیوں نہ ہوں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فوغت کی سوچ “پروجیکٹ 2025” کے اہداف کے عین مطابق ہے، ایک ایسا منصوبہ جو امریکی بیوروکریسی کو مذہبی قدامت پرستی کے سانچے میں ڈھالنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس منصوبے میں اسلام یا مسلمانوں کی گنجائش نہیں، بلکہ ایک “مسیحی ریاست” کا خالص تصور غالب ہے، جو ہر سیاسی اور سماجی مظہر کو دینی اصولوں کے تابع بنانا چاہتا ہے۔
باولا وائٹ… مذہب، اقتدار اور اسرائیل ایک صف میں:
فروری 2025 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باولا وائٹ کین کو باضابطہ طور پر وائٹ ہاؤس میں “دفترِ ایمان” (Office of Faith-Based Initiatives) کی سربراہ مقرر کیا۔ اس تقرری نے یہ پیغام واضح کر دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مذہبی پالیسیوں کا مرکز اب صرف مشورے نہیں بلکہ فعال قیادت ہے اور یہ قیادت ایک ایسی خاتون کے ہاتھ میں ہے جو امریکی انجیلی حلقوں میں ایک متنازعہ مگر بااثر شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ باولا وائٹ محض ایک ٹی وی مبلغہ نہیں، بلکہ وہ “کرشماتی مسیحیت” کی نمائندہ ہیں، جس میں روحانی بلندی اور دنیاوی خوشحالی کا امتزاج ملتا ہے۔ وہ “خوشحالی کے لاہوت” (Prosperity Theology) کی علمبردار ہیں، جو کہتا ہے کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ملتی ہے۔
ان کا اسرائیل کے لیے عقیدت بھرا موقف کسی سیاسی مفاد کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک “مذہبی فریضہ” ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کی خدمت دراصل خدا کی خدمت ہے اور یہودیت کے ساتھ عقیدتی اتحاد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کی تیاری کا حصہ ہے۔ ان کی سربراہی میں “دفترِ ایمان” ایک رسمی مذہبی ادارہ نہیں رہا، بلکہ ایک نظریاتی محاذ بن گیا ہے۔ ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق، اس دفتر میں کام کرنے والے اکثر مشیروں کا تعلق ایسے انجیلی چرچوں سے ہے جو اسلام کو ایک “باطل مذہب” اور “خطرناک نظریہ” سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی خدمت کرنا، اسلام کا سیاسی اور ثقافتی اثر ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
باولا وائٹ کی قیادت میں “یومِ دعاءِ قومی” جیسے مواقع پر ایسے مبلغین کو بلایا جاتا ہے جو اسرائیل کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور اسلام کو “شیطانی نظام” قرار دیتے ہیں۔ وہ اس تمام سرگرمی کو “روحانی عبور” (Spiritual Crossing) کا نام دیتی ہیں، جس کا مقصد امریکہ کو ایک بار پھر “مقدس قوم” میں بدلنا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر یہ کہا ہے کہ “دفترِ ایمان” کا مقصد مسیحی اداروں کو حکومتی سطح پر مضبوط بنانا ہے، چاہے اس کا نتیجہ دیگر مذاہب کے لیے “عدم مساوات” کی صورت میں نکلے۔ وہ کھلے الفاظ میں اسلام کو دشمن قرار دیتی ہیں اور اسے “امریکی روحانی شناخت کے خلاف خطرہ” کہتی ہیں۔
ان کی اسرائیل سے وابستگی محض سفارتی نہیں بلکہ عقیدتی ہے۔ وہ کئی بار یہ کہہ چکی ہیں کہ 2017 میں امریکی سفارت خانے کا یروشلم منتقل ہونا دراصل “ایک مقدس فریضہ” تھا نہ کہ محض ایک سیاسی فیصلہ۔ چند ماہ قبل انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کیا بعنوان “ہم اسرائیل کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں” جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا: “یہ ایک دینی فرض ہے اور اس سے پیچھے ہٹنا ایمان کی کمزوری ہو گی۔” انہوں نے انکشاف کیا کہ اس فیصلے پر صدر ٹرمپ کو آمادہ کرنے میں ان کا بھی کردار تھا اور وہ آج بھی ایسے ہی فیصلوں کو امریکہ کے لیے “نجات دہندہ روحانی اقدامات” سمجھتی ہیں۔