مشرف کیس، کسی کو سنے بغیر سزا دے دینا کہاں کا قانون ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Pervez-Musharraf.
Pervez-Musharraf.

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سابق صدر پرویز مشرف کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کسی کو سنے بغیر سزا دے دینا کہاں کا قانون ہے، اگر کوئی 342 کا بیان نہیں دے رہا تو ضروری ہے کہ اس سے منگوا لیا جائے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بینچ نے پرویز مشرف کا ٹرائل کرنیوالی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواستوں پر سماعت کی۔

علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کیس قانون کے مطابق نہیں بنا اور نہ عدالت کی تشکیل قانون کے مطابق ہوئی، 21 جون 2013 کو اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 6 کے تحت کیس بنانے کی سمری بھیجی تھی اور سیکریٹری داخلہ کو 29 دسمبر 2013 کو شکایت درج کرنے کا اختیار دیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ فیصلے کو پڑھیں تو اس میں اعانت جرم کا ذکر کیاگیا، اعانت جرم میں پوری فوج کے لوگوں کر رگڑ دیا گیا ہے، اس طرح تو اس وقت کی عدلیہ کے حلف لینے والے بھی شامل ہو جائیں گے۔

بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ آرٹیکل 6 کا جرم کوئی اکیلا نہیں کر سکتا، سلیکٹڈ لوگوں کے خلاف کارروائی آئین کے خلاف ہوگی، ا یہ جرم مجموعی طور پر لیا جا سکتا ہے، یہ رشوت والے قانون کی طرح لیا جاسکتا ہے رشوت دینے اور لینے والا دونوں جرم دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رانا ثناء اللہ نے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قرآن مجید اٹھا لیا

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ کسی کو سنے بغیر سزا دے دینا کہاں کا قانون ہے، اگر کوئی 342 کا بیان نہیں دے رہا تو ضروری ہے کہ اس سے منگوا لیا جائے، کیا پہلے کبھی ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل مکمل ہوا ہے؟۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ فرد جرم میں تو غداری کا ذکر ہی نہیں ہے، جتنی سمریز موجود ہیں ان میں ملزموں کا لفظ ہے کسی جگہ ایک بندے کا ذکر نہیں ہے،خصوصی عدالت کے فیصلے کو دیکھیں تو اُس وقت جس جس نے ساتھ دیا وہ سب اعانت کے ملزم بن جاتے ہیں۔

بینچ نے استفسار کیا کہ کتنے آج پھر رہے ہیں کسی کیخلاف ایسے ٹرائل کیا ہے؟ وفاق سے پوچھتے ہیں اسحاق ڈار کے خلاف ایسے کارروائی کی ہے، اگر جرم وفاقی حکومت کے سامنے ہورہا ہے تو کیا وفاقی حکومت شکایت درج کی جاسکتی ہے۔

عدالتی معاون علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ غیر قانونی اقدامات کی لسٹ بھری پڑی ہے، آرمی عدالتوں کا قیام بھی غیر قانونی اقدام میں آتا ہے لیکن غداری نہیں،کابینہ کی منظوری کے بغیر آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بن سکتا، یہ اختیار وزیراعظم کے پاس نہیں تھا، اگر بنیاد غلط ہے تو پوری عمارت گرے گی۔

علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے پر فل بینچ نے آئندہ سماعت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل دلائل دینے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی سماعت 13 جنوری پیر تک ملتوی کردی اور وزارت داخلہ کی خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری بھی مانگ لی۔

Related Posts