کراچی: بدھ 2 جولائی 2025 کو سعودی ریال کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی تازہ ترین شرح تبادلہ جاری کر دی گئی ہے جو ملکی معیشت اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
اوپن مارکیٹ کی شرح:
خریداری: 76اعشاریہ 05 روپے
فروخت: 76اعشاریہ 35 روپے
انٹربینک مارکیٹ کی شرح:
خریداری: 75اعشاریہ 62 روپے
فروخت: 75اعشاریہ 75 روپے
سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی محنت کش ہر ماہ بڑی تعداد میں ترسیلات زر وطن بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے سعودی ریال کی شرحِ تبادلہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
ریال کی قدر میں اضافہ نہ صرف ترسیلات زر کی مالیت بڑھاتا ہے بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آتی ہے، جو ملکی معیشت کو سہارا دینے اور مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
کرنسی ایکسچینج کا عمل عالمی معیشت میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے جہاں درآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور غیر ملکی سفر براہِ راست شرحِ تبادلہ پر انحصار کرتے ہیں۔
مضبوط شرحِ مبادلہ نہ صرف افراطِ زر کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ تجارتی توازن کو بھی بہتر بناتی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2024-25 کے ابتدائی 11 ماہ (جولائی 2024 تا مئی 2025) کے دوران بیرون ملک سے ترسیلات زر میں 28اعشاریہ 8 فیصد کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو تقریباً 34اعشاریہ 9 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔
مئی 2025 میں پاکستان کو 3اعشاریہ 686 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں، جو اپریل کے مقابلے میں 16 فیصد اور گزشتہ سال مئی کے مقابلے میں 13اعشاریہ 7 فیصد زیادہ ہیں۔
ترسیلات زر کے اعداد و شمار کے مطابق مئی 2025 میں سب سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب سے آئیں، جن کی مالیت 913اعشاریہ 3 ملین امریکی ڈالر رہی جب کہ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات رہا جہاں سے 754اعشاریہ 2 ملین ڈالر کی ترسیلات پاکستان منتقل ہوئیں۔
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ سعودی ریال کی شرح تبادلہ نہ صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی آمدنی بلکہ پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔
شرحِ تبادلہ میں استحکام سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوتے ہیں بلکہ ملکی کرنسی کو بھی سہارا ملتا ہے، جو پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔