کراچی میں گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے تنگ عوام کے چولہے تو ٹھنڈے پڑ گئے مگر ایس ایس جی سی کے کرپٹ عملے و افسران کے کاروبار خوب گرم ہیں۔
حیرت انگیز طور پر گیس چوری کا ایسا منظم نیٹ ورک سامنے آیا ہے جس میں کمپنی کے ہی اہلکار نہ صرف شامل ہیں بلکہ سہولت کار بھی بنے ہوئے ہیں اور ہوٹلوں کو غیر قانونی کنکشنز اور “خصوصی رعایت” فراہم کی جا رہی ہے۔
اسی دوران، حکومت پاکستان نے گیس ٹیرف میں ایک اور ظالمانہ اضافہ کر کے مہنگائی کا تازہ بم گرا دیا ہے۔ صنعتی و بجلی پیدا کرنے والے شعبے کے لیے 10 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین کو “تحفظ” دینے کے نام پر فکسڈ چارجز بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔ یعنی اب اگر گیس نہ بھی آئے تو بھی بل ضرور آئے گا، وہ بھی دوگنا۔
گیس ملے نہ ملے بل تو دینا ہوگا! گیس کمپنی نے بھی کراچی کے شہریوں سے بھتہ خوری شروع کردی
یہ معاشی جادوگری دراصل آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری کے نام پر کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس عالمی سوداگری کا پورا بوجھ پاکستانی عوام ہی اُٹھائیں گے؟ اور کیا ایس ایس جی سی کی اندرونی کرپشن کی قیمت بھی صارفین ہی ادا کریں گے؟
حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس نے کئی شرمناک حقائق بے نقاب کیے ہیں، کراچی میں ایس ایس جی سی کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر جعلی اور غیر قانونی کنکشنز دے کر گیس چوری میں ہوٹل مافیا کی مدد کی جبکہ گھریلو صارفین کو اوور بلنگ کے ذریعے 11 ارب روپے کا اضافی مالی بوجھ ڈال دیا گیا۔
اس رقم کو “لائن لاسز” یعنی گم شدہ گیس کی مد میں شامل کیا گیا جس کا سیدھا مطلب ہے کہ کمپنی کی نااہلی اور اندرونی چوری کا تاوان عوام سے وصول کیا گیا۔
کراچی میں گیس کی چوری! شہری سلنڈر بھروا بھروا کر کنگال، ایس ایس جی سی کے کرپٹ افسران و عملہ مالا مال
صورتحال یہ ہے کہ عام شہریوں کے علاقوں میں گیس کی فراہمی تو صفر ہے، لیکن مخصوص ہوٹلوں اور نجی کاروباری مراکز کو مستقل، باقاعدہ اور “نرمی سے بھری” سپلائی جاری ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ گیس کس کے لیے ہے؟ عوام کے لیے یا مفادات کے لیے؟
اس کے ساتھ ساتھ، گیس کا کم پریشر، غیر اعلانیہ بندش، اور فکسڈ چارجز میں اضافے نے عوام کو ذہنی، مالی اور گھریلو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر گھر سے اٹھنے والی شکایت کو صرف “سسٹم اپ گریڈ” یا “مینٹیننس” کہہ کر دبا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ایس ایس جی سی افسران نئی اسکیموں میں ذاتی مفاد ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
یہ سب محض گیس بحران نہیں، یہ بدعنوان پالیسیوں اور ادارہ جاتی بدنیتی کا مجموعہ ہے۔ جب ادارے خود چور بن جائیں، ہوٹلوں کو نوازا جائے اور عوام کو صرف بلوں کے ذریعے سزا دی جائے تو سوال صرف اتنا نہیں کہ گیس ہے یا نہیں؟ بلکہ اصل سوال یہ بن جاتا ہے کہ “ضمیر ہے یا نہیں؟”