ایرانی حکام نے اسرائیل کے ساتھ سیز فائر کے بعد ملک کے اندر سیکورٹی کریک ڈاؤن میں شدت لاتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، پھانسیاں اور عسکری تعیناتیاں شروع کر دی ہیں۔
رویٹرز کا کہنا ہے کہ حکام کے مطابق 13 جون کو اسرائیلی فضائی حملوں کے آغاز کے چند دن بعد ہی ایرانی سیکورٹی فورسز نے چیک پوسٹوں کے ذریعے سڑکوں پر گشت اور گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو جنگ بندی کے بعد تیز ہوگیا ہے۔
اسرائیل اور جلاوطن ایرانی اپوزیشن گروپوں کو امید تھی کہ ایرانی پاسداران انقلاب، ملکی سیکورٹی اداروں اور ایٹمی تنصیبات پر حملے اسلامی جمہوریہ کے خلاف عوامی بغاوت کا سبب بنیں گے مگر اب تک حکومت مخالف کسی بڑے مظاہرے کی اطلاع نہیں ملی۔
ایک سینئر ایرانی سیکورٹی افسر اور ملکی سیکورٹی معاملات سے واقف دو دیگر اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی تمام تر توجہ ممکنہ اندرونی بغاوت کو روکنے پر ہے۔
افسر نے بتایا کہ پاسداران انقلاب اور بسیج ملیشیاء کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور اب داخلی سلامتی کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق حکومت کو اسرائیلی ایجنٹوں، نسلی علیحدگی پسندوں اور جلاوطن اپوزیشن گروپ “مجاہدین خلق” سے خطرہ لاحق ہے، جو ماضی میں ایران میں حملے کر چکا ہے۔
تہران سے تعلق رکھنے والے ایک سرگرم کارکن، جنہیں 2022 کے مظاہروں کے دوران جیل بھیجا گیا تھا، نے کہا ہم اس وقت انتہائی احتیاط سے کام لے رہے ہیں کیونکہ خدشہ ہے کہ حکومت اس صورتحال کو بہانہ بنا کر مزید پکڑ دھکڑ کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسے درجنوں افراد کے بارے میں معلوم ہے جنہیں طلب کر کے یا تو گرفتار کیا گیا یا خاموش رہنے کی وارننگ دی گئی۔
ایرانی انسانی حقوق گروپ ہرنا کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 705 افراد کو سیاسی یا سیکورٹی الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے، جن میں کئی پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق، منگل کو تین افراد کو ترکی کی سرحد کے قریب ارومیہ میں پھانسی دے دی گئی، جبکہ کرد انسانی حقوق گروپ ہنگاو کے مطابق تمام افراد کا تعلق کرد نسل سے تھا۔
سیکورٹی سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ پاکستان، عراق اور آذربائیجان کی سرحدوں پر فوج تعینات کر دی گئی ہے تاکہ دہشتگردوں کی دراندازی روکی جا سکے۔ایک اور سیکورٹی افسر نے تصدیق کی کہ سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایران کی سنی اکثریتی کرد اور بلوچ اقلیتیں طویل عرصے سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف مزاحمت کرتی آئی ہیں اور تہران کی فارسی بولنے والی شیعہ حکومت سے نالاں رہی ہیں۔
عراقی کردستان میں موجود ایرانی کرد علیحدگی پسند جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے کئی کارکنوں اور جنگجوؤں کو ایران میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان جماعتوں نے ایرانی سیکورٹی اداروں کی جانب سے وسیع پیمانے پر فوجی نقل و حرکت کی بھی اطلاع دی ہے۔
جمہوریہ کردستان ایران پارٹی کے رہنما ریباز خلیلی نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے تین دن کے اندر اندر ایرانی کرد صوبوں میں پاسداران انقلاب کے یونٹس کو اسکولوں میں تعینات کر دیا گیا، جہاں گھر گھر تلاشی کے ذریعے مشتبہ افراد اور اسلحہ کی تلاش کی گئی۔
پاسداران انقلاب نے اپنے دفاع کے لیے صنعتی علاقوں کو خالی کروا لیا اور اہم سڑکیں بند کر کے ان کے ذریعے کمک کرمانشاہ اور سنندج جیسے بڑے شہروں میں بھیجی گئی۔
کرد پارٹی فاطمہ احمد کی رکن نے بتایا کہ انہوں نے اب تک 500 سے زائد اپوزیشن کارکنوں کی گرفتاری ریکارڈ کی ہے۔