اتوار کے روز شام کے دارالحکومت دمشق میں واقع ایک چرچ پر ہونے والے خودکش حملے میں 20 افراد جان سے گئے اور 52 زخمی ہو گئے۔
شامی وزارت داخلہ کے مطابق یہ حملہ داعش سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش حملہ آور نے کیا جس نے چرچ میں داخل ہو کر فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
یہ واقعہ دمشق میں اس نوعیت کا پہلا حملہ ہے جب سے دسمبر میں اسلام پسند باغی گروہوں نے طویل عرصے سے اقتدار پر قابض بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا۔ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دمشق میں کسی چرچ کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
شامی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ داعش سے وابستہ ایک خودکش حملہ آور دارالحکومت کے علاقے دولعا میں واقع سینٹ الیاس چرچ میں داخل ہوا، جہاں اس نے فائرنگ کی اور پھر خود کو بارودی بیلٹ کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا ۔
موقع پر موجود اے ایف پی کے نمائندوں نے چرچ کے اندر خون کے تالاب اور تباہ شدہ بینچز دیکھے۔ امدادی کارکن زخمیوں کو لے جا رہے تھے جبکہ سیکورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔
شامی وزارت صحت نے سرکاری خبررساں ایجنسی سانا کے ذریعے تصدیق کی کہ حملے میں 20 افراد جان سے گئے اور 52 زخمی ہوئے جبکہ شہری دفاع نے ابتدائی طور پر 15 ہلاکتوں کی اطلاع دی تھی۔
عینی شاہد لارنس معمارے نے بتایا کہ ایک شخص باہر سے چرچ میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں ہتھیار تھا، اس نے فائرنگ شروع کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی ۔
اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی گیر پیڈرسن نے اس حملے کو سفاکانہ جرم قرار دیتے ہوئے مکمل تحقیقات اور مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹام باراک نے شام کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ان کی مدد کرے گا جو ملک میں خوف اور عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیں۔
اردن نے بھی شام کی حکومت کی انسداد دہشت گردی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا، جبکہ فرانس نے اس قابل نفرت حملے کی مذمت کی اور شام میں ایسی منتقلی کی خواہش کا اعادہ کیا جس میں تمام مذاہب کے لوگ امن، سلامتی، اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
شامی وزارت خارجہ نے اس حملے کو قومی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوشش قرار دیا۔
چرچ کے قریب ایک دکان پر موجود 40 سالہ زیاد نے بتایا کہ ہم نے پہلے فائرنگ کی آواز سنی، پھر ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ چرچ میں آگ لگ گئی ۔
واقعے کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جہاں اس وقت درجنوں نمازی، بچے اور بزرگ موجود تھے۔ متعدد افراد لاپتہ ہیں، اور ان کے اہلِ خانہ بے چینی سے ان کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
یاد رہے کہ بشار الاسد نے ہمیشہ اقلیتوں کا محافظ ہونے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم شام کی 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران مسیحی، شیعہ اور دیگر اقلیتیں کئی مرتبہ شدت پسند حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں، جن میں سے بیشتر کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
اقتدار کی تبدیلی کے بعد عالمی برادری اور غیرملکی نمائندوں نے بارہا شام کی نئی حکومت سے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں قومی مفاہمتی عمل میں شامل کرنے پر زور دیا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔
وزیر داخلہ انس خطاب نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کے مطابق: ایسے دہشت گردانہ اقدامات شام میں شہری امن کے قیام کی کوششوں کو نہیں روک سکتے۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں خطاب نے اعتراف کیا تھا کہ شام کو بڑے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور داعش اب اسٹریٹجک اہداف پر منظم حملے کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسیحی اور شیعہ برادریوں پر حملوں کی متعدد کوششیں ناکام بنائی جا چکی ہیں۔
گزشتہ ماہ داعش نے نئی شامی حکومت کے خلاف پہلا حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ دمشق کے قریب ایک داعش سیل کے افراد کو حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ حلب میں ہونے والے ایک انسدادِ دہشت گردی آپریشن میں ایک سیکورٹی اہلکار اور تین داعش جنگجو مارے گئے تھے۔
یاد رہے کہ داعش نے 2014 میں شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کر کے سرحدوں کے پار خلافت کا اعلان کیا تھا جسے امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز نے 2019 میں شکست دی تاہم داعش کے دہشت گرد اب بھی شام کے صحرائی علاقوں میں موجود ہیں۔